Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے حلقہ این اے 249 کا ضمنی الیکشن کیوں اہم ہے؟

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے لیے ضمنی انتخاب جمعرات کو منعقد ہو رہا ہے۔
اس حلقے کی آبادی 8 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 39 ہزار 591 ہے۔ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ سالہا سال سے آباد ہیں، اور حلقے کی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوکری اور مزدور پیشہ افراد پر مشتمل ہے۔
سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے میں تین جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے مابین مقابلہ ہوا تھا۔

 

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا نے 35,349 ووٹ لے کر یہ نشست جیتی تھی جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف محض 723 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔ انہوں نے 34،626 ووٹ حاصل کیے تھے۔
ٹی ایل پی کے امیدوار 23 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے اس الیکشن میں تیسرے نمبر پر رہے۔
رواں سال مارچ میں جب اس حلقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا سینیٹر منتخب ہو کر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو گئے تو تمام جماعتوں نے اس حلقے کے ضمنی انتخاب کو اپنے لیے ایک موقع سمجھا۔
تاہم اس ضمنی انتخاب میں مقابلہ دو جماعتوں میں ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ گذشتہ انتخابات میں تیسرے نمبر پر آنے والی تحریک لبیک کے اندرونی اختلافات ہیں۔
ٹی ایل پی اس حلقے میں خاصی مقبولیت اختیار کر چکی ہے اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہاں سے صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ٹی ایل پی کے پاس ہے، تاہم ضمنی انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم پر پارٹی میں اختلاف ہوا جس کے بعد پارٹی رہنما احمد بلال قادری نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حلقے کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاف میں ہے (فوٹو: امجد آفریدی فیس بک)

بلال قادری سنی تحریک کے بانی سلیم قادری کے بیٹے ہیں، اور انہیں سنی تحریک کے رہنماؤں کی سپورٹ حاصل ہے، اس لیے کچھ مبصرین کا اندازہ ہے کہ اندرونی اختلاف کی وجہ سے ٹی ایل پی کا ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔
مسلم لیگ ن نے اس مرتبہ سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو میدان میں اتارا ہے جبکہ تحریک انصاف نے امجد آفریدی کو ان کے مدمقابل انتخاب لڑنے کے لیے منتخب کیا ہے۔
ضمنی انتخاب کے امیدواروں میں ایک اور مشہور نام پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا ہے۔ ان کی جماعت پی ایس پی جنرل الیکشنز میں کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی تھی، تاہم ضمنی انتخاب میں وہ بہتر کارکردگی کے لیے پُرامید ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی حتمی فہرست کے مطابق اس ضمنی انتخاب میں مجموعی طور پر 30 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
ضمنی انتخاب میں تحریک لبیک کے امیدوار نذیر احمد پارٹی نشان کرین پر حصہ لے رہے ہیں، جبکہ وفاقی وزارت داخلہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ اس حوالے سے ای سی پی نے وضاحت کی ہے کہ ’اسے تحریری طور پر اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا، اور کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے لیے باضابطہ کارروائی کی جاتی ہے اور وہ تب ہی ہوگی اگر وزارت داخلہ اس حوالے سے کوئی ہدایت کرے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی کو کرکٹ بیٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کو ٹائیگر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے امیدوار قادر خان مندوخیل کو تیر کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے رمضان کی وجہ سے حلقے میں ضمنی انتخاب کی پولنگ مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی (فائل فوٹو: اے پی)

پاک سرزمین پارٹی کے امیدوار مصطفیٰ کمال کو ڈولفن جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار محمد مرسلین کو پتنگ کا نشان دیا گیا ہے۔ 
عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں جس کے بعد مقابلہ مزید دلچسپ ہو گیا ہے کیونکہ حلقے کی پشتون آبادی مفتاح اسماعیل کی حمایت کر سکتی ہے۔
ضمنی انتخاب رمضان میں ہورہا ہے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی تھی کہ پولنگ کو ملتوی کیا جائے کیونکہ روزے سے ہونے کی وجہ سے ووٹرز کم تعداد میں نکلیں گے۔ تاہم یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ پر مشتمل یہ حلقہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)  کے اعجاز شفیع کا گڑھ رہا ہے اور وہ 90 کی دہائی میں  یہاں سے دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ جب شریف خاندان سے پہلی مرتبہ کسی نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو بلدیہ کے اس حلقے کا انتخاب ہوا۔

حلقے میں کورونا کی بلند شرح

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل اپنی کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔ دیگر جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم  بھرپور طریقے سے چلائی ہے اور اپنی کامیابی کے لیے پُرامید نظر آتے ہیں۔


حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں (فوٹو: پیپلز پارٹی ٹوئٹر)

دوسری طرف صوبائی محکمہ صحت کے مطابق اس علاقے میں کورونا سے متاثر ہونے کی شرح 6 فیصد ہے۔
کراچی کے ضلع غربی جس میں بلدیہ ٹاؤن واقع ہے، میں پچھلے ایک ہفتے میں 6 ہزار لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا جب کہ ضلع میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ تاہم ضمنی انتخاب کی الیکشن مہم کے دوران کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں عروج پر رہیں اور الیکشن کے دن بھی یہی صورت حال دہرائے جانے کا اندیشہ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی عمل کے حوالے سے ضابطہ کار جاری کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر عمل داری کی خاص تاکید کی ہے. ای سی پی نے پریذائیڈنگ افسران کو ہدایت کی ہے کہ ’انتخابی مواد کی وصولی سے لے کر پولنگ سٹیشن کے اندر بھی سماجی فاصلے کی پابندی کو یقینی بنایا جائے۔‘
اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کورونا ایس او پیز کی وجہ سے پولنگ کا عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ اگر کسی ووٹر کے پاس ماسک نہیں ہے تو الیکشن کمیشن کا عملہ اور ضلعی انتظامیہ فراہم کرے گی۔
ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے الیکشن کمیشن کے عملے نے حلقے میں انتخاب کی تیاری مکمل کرتے ہوئے مجموعی طور پر 276 پولنگ سٹیشن قائم کیے ہیں۔ مردوں کے لیے 76 اور خواتین کے لیے 61 پولنگ سٹیشن ہیں، جبکہ مشترکہ پولنگ سٹیشن کی تعداد 139 ہے۔
حلقے کے 92 پولنگ سٹیشنز کو حساس جبکہ 184 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں سیکیورٹی کے لیے پولیس کے 2,800 اہلکار اور رینجرز کے 1,100 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

شیئر: