Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمیٹی ڈل گئی، بینک میں جمع ہوگئی، کہں ٹیکس نوٹس تو نہیں آئے گا؟

ایف بی آر کے ترجمان ندیم رضوی کے مطابق بینکنگ چینل سے رقم کی منتقلی پر انکم ٹیکس عائد نہیں ہوتا (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں لوگوں کا اپنی تنخواہ میں سے بچت کا ایک اہم ذریعہ دوستوں یا محلہ داروں کے ساتھ مل کر ’کمیٹی ڈالنا‘ ہے۔ انگریزی میں اسے ’چٹ فنڈ‘ بھی کہتے ہیں۔
اس میں تمام ارکان اپنی اپنی رقم ایک مشترکہ فنڈ میں ڈالتے ہیں اور ہر ماہ یا پندرہ دن بعد وہ ساری رقم ایک ممبر کے پاس چلی جاتی ہے۔ اس طرح باری باری وہ اجتماعی رقم تمام ارکان کو یکمشت دی جاتی ہے۔ گویا اس میں آپ کے اپنے ہی پیسے آپ کو ایک خاص مدت بعد اکھٹے ہو کر واپس ملتے ہیں۔
اسلام آباد کے فخر احمد ایک پرائیویٹ دفتر میں اپنے کولیگز کے ساتھ کمیٹی ڈالتے ہیں۔ ہر گولیگ پچاس ہزار مہینہ جمع کرواتا ہے اور سولہ ممبران کی مل کر آٹھ لاکھ رقم جمع ہوتی ہے جو ہر ماہ ایک ممبر کو مل جاتی ہے۔
فخر احمد کہتے ہیں کہ ’اتنی رقم کیش میں جمع کرنا بھی مشکل ہے اور رکھنا بھی، اس لیے سب ممبران اسے بینک اکاونٹ میں ہی بھیج دیتے ہیں، تاہم کچھ ممبران کا صفر اعشاریہ چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کٹتا ہے جبکہ دیگر کو خدشہ ہوتا ہے کہ آٹھ لاکھ کی رقم اکاؤنٹ میں آنے پر کہیں سال بعد دوبارہ ٹیکس کا نوٹس نہ آ جائے۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز نے سپریم کورٹ کے وکیل اور ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’کمیٹی ڈالنے کے لیے رقم زیادہ ہو تو بینک کا چینل ہی استعمال کیا جاتا ہے، تاہم ممبران میں جو بھی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں نہیں ہوگا یعنی عرف عام میں نان فائلر ہوگا اس کو ہر ٹرانزیکشن پر زیرو اعشاریہ چھ فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس تو دینا ہی ہوگا۔‘

کمیٹیوں کے پیسے اکثر بینکس کے ذریعے بھی جمع کروائے جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہی وجہ ہے کہ اب لوگ نان فائلر کی سزا سے بچنے کے لیے زیرو انکم دکھا کر بھی ٹیکس ریٹرن فائلر بن جاتے ہیں مگر ملکی خزانے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ حکومت بخوشی دعویٰ کر دیتی ہے کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔

بیشتر لوگ محلوں کی سطح پر یا پھر دفاتر میں کمیٹیاں ڈالتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ’کمیٹی ممبران کا یہ خدشہ درست نہیں ہے کہ ان سے ڈبل انکم ٹیکس کٹ جائے گا، چونکہ انکم ٹیکس خود بخود نہیں کٹتا اس لیے یہ خدشہ نہیں ہے کہ ایف بی آر غلطی سے کمیٹی پر بھی ٹیکس عائد کر دے۔’
ان کا کہنا تھا کہ فائلر خود ہی ٹیکس جمع کرواتا ہے اور وہ اپنی انکم صرف اسی رقم کو ظاہر کرے گا جو اس کی تنخواہ یا آمدنی ہو گی جبکہ کمیٹی کی رقم کی وضاحت ٹیکس حکام کو پوچھنے پر بآسانی دی جا سکتی ہے۔
تاہم کمیٹی جمع کرنے اور بھیجنے والوں کے لیے ان کا مشورہ تھا کہ رقم وصول کرنے اور لینے دونوں کے لیے بینکنگ چینل کو استعمال کریں تاکہ آپ کے پاس انکم ٹیکس حکام کو بتانے کے لیے ٹریل موجود ہو۔

کمیٹی میں اپنے ہی پیسے ایک خاص مدت کے بعد اکٹھے ہو کر رکن کے پاس آ جاتے ہیں (فوٹو: شٹر سٹاک)

ڈاکٹر اکرام کے مطابق ’اگر آپ کمیٹی جمع کرتے ہیں اور پھر کچھ ممبران کو کیش میں ادا کرتے ہیں تو مشکوک ٹرانزیکشن کی رپورٹ خود بخود بن سکتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ جمع بھی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کریں اور ادا بھی اکاؤنٹ کے ذریعے کریں۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ترجمان ندیم رضوی نے وضاحت کی کہ بینکنگ چینل کے ذریعے جو رقم کی منتقلی ہوتی ہے اس پر انکم ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔

شیئر: