Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کی وبا، پاکستانی آموں کی برآمدات ’پھر سے متاثر ہونے کا خدشہ‘

امریکہ آموں کا سب سے بڑا امپورٹر ہے اور عالمی برآمدات کا 28 فیصد آم ہر سال امریکہ جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان آموں کی سالانہ پیداوار کا محض چھ سے سات فیصد درآمد کرتا ہے اور عالمی منڈی میں آموں کی برآمدات میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔
پاکستان فروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے 2019 میں ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن آم برآمد کیا تھا۔
 2020 میں کورونا کی وجہ سے برآمدات کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔ فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے یورپی اور امریکی ممالک کو آم کی برآمدات ممکن نہیں ہوسکی تھیں لہٰذا پاکستانی ایکسپورٹرز نے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آم برآمد کیا تھا مگر اس سے سالانہ برآمدات کا محض نصف ہدف پورا ہو سکا تھا۔
رواں سال بھی کورونا وائرس کے باعث دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں لاک ڈاؤن ہے اور یورپ، کینیڈا کے علاوہ دنیا کے کئی دیگر ملکوں کے لیے پاکستان سے پروازیں معطل یا محدود ہیں۔
اس وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سال بھی پاکستان کے آم کی برآمد میں واضح کمی ہو گی۔
آموں کے ایک بڑے تاجر اور برآمد کنندہ بابر درانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اگر ایک مہینے بعد بھی کورونا لاک ڈاون کی یہی صورتحال رہی تو آموں کی برآمدات متاثر ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر بارڈر کھلے رہے تو زمینی راستوں اور کنٹینرز کے ذریعے ایران، عراق اور دیگر ممالک کو آموں کی برآمدات کی جا سکیں گی۔‘
عالمی مارکیٹ میں آموں کی کھپت 17 لاکھ ٹن سالانہ ہے جس کی مالیت کا تخمینہ 2.1 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
امریکہ آموں کا سب سے بڑا امپورٹر ہے اور عالمی برآمدات کا 28 فیصد آم ہر سال امریکہ جاتا ہے، جبکہ یورپی ممالک کو آموں کی برآمدات کا عالمی تناسب 22 فیصد ہے۔
ان دونوں عالمی منڈیوں تک پاکستان کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔

عالمی مارکیٹ میں آموں کی کھپت 17 لاکھ ٹن سالانہ ہے جس کی مالیت کا تخمینہ 2.1 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بابر درانی کے مطابق پاکستان نے آم کی برآمدی مارکیٹ سے ابھی تک مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھایا۔
’ہم نہ صرف تیار آم بلکہ ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ بھی برآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا سندھڑی آم دنیا میں آم کی وہ واحد قسم ہے جس میں فائبر نہیں ہوتا، اس آم کو ڈرائی پراڈکٹ کے طور پر ایکسپورٹ کرکے لاکھوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔‘
تاہم رواں سال سندھڑی آم کی پیداوار بھی کم ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بیماری کی وجہ سے پھل کافی مقدار میں ضائع ہو رہا ہے۔
سندھ کا شہر ٹنڈو الہ یار سندھڑی آم کی پیداوار کے لیے مشہور ہے مگر اس سال وہاں’سَڈَن ڈیتھ‘  نامی بیماری آموں کو برباد کر رہی ہے۔
بابر درانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس بیماری کی وجہ سے پیڑوں پر آم لگا ہی کم ہے جس کی وجہ سے سندھڑی آم کی پیداوار متاثر ہوگی۔‘

آموں کی ملکی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں لگ بھگ ایک لاکھ 70 ہزار ایکڑ رقبے پر آم کی کاشت ہوتی ہے۔ ملک میں آموں کی پیداوار بنیادی طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے اضلاع میں ہوتی ہے، البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بھی چند اضلاع میں کچھ مقدار میں آم اگائے جاتے ہیں۔
پنجاب کے جو اضلاع آموں کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں ان میں ملتان، رحیم یار خان، بہاولپور اور مظفرگڑھ شامل ہیں، جبکہ سندھ میں میرپور خاص، ٹھٹہ اور حیدرآباد کے اضلاع میں آموں کے وسیع باغات ہیں۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پشاور اور مردان کے علاقوں میں آم کی پیداوار ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں آموں کی پیداوار 18 لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہے، جس کا 37 فیصد، 6 سے 7 لاکھ ٹن سندھ میں اگایا جاتا ہے، جبکہ آموں کی ملکی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے۔
یوں تو پاکستان میں مختلف اقسام کے آم اگائے جاتے ہیں اور تمام ہی ذائقے میں منفرد ہوتے، مگر اصل مقابلہ سندھ کے سندھڑی آم اور پنجاب کے چونسا میں ہی ہوتا ہے۔

چونسا کی پیداوار کا اصل مرکز ملتان ہے، جبکہ یہ قسم رحیم یار خان، بہاولپور اور خانیوال میں بھی کثرت سے کاشت ہوتی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سندھڑی کی پیداوار کا مرکز میرپور خاص ہے، اس کے علاوہ سانگھڑ، حیدر آباد، ٹنڈو الہ یار، نوشہرو فیروز کے اضلاع میں بھی سندھڑی کی کاشت ہوتی ہے۔
چونسا کی پیداوار کا اصل مرکز ملتان ہے، جبکہ یہ قسم رحیم یار خان، بہاولپور اور خانیوال میں بھی کثرت سے کاشت ہوتی۔
کچھ حلقوں کے مطابق ملتان میں کئی باغات کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کی وجہ سے پنجاب میں بھی آموں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔

شیئر: