Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی پر عمل شروع، ’غزہ میں جشن‘

اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 دن تک جاری رہنے والے حملوں کے بعد غزہ میں جنگ بندی پر عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔
جنگ بندی کے کچھ ہی منٹوں بعد غزہ میں لوگوں نے جشن منایا اور سڑکوں پر نکل آئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ غزہ کی سڑکوں پر گاڑیوں کے ہارن اور ہوائی فائرنگ کی آوازیں گونجنے لگیں جبکہ مغربی کنارے پر لوگ جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مصر کے سرکاری ٹی وی اور فلسطین کے عسکریت پسند گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس جنگ بندی سے سالوں سے چلی آنے والی کشیدگی ممکنہ طور پر رک جائے گی۔
اس اعلان کے چند منٹوں بعد ہی دونوں جانب ایک بار پھر کشیدہ صورتحال پیدا ہوئی۔ اسرائیلی سرحد کے قریب آنے والے راکٹس کے لیے سائرن بجنے لگے، جبکہ روئٹرز کے ایک صحافی نے غزہ میں فضائی حملے کی آواز سنی۔
جنگ بندی جمعے کی صبح عمل میں آئی جب اسرائیل میں حماس کے راکٹوں سے خبردار کرنے کے لیے کوئی سائرن نہیں سنا گیا۔ 
تاہم کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
مصر کی جانب سے پیش کیے جانے والے معاہدے پر اس وقت اتفاق کیا گیا جب 10 مئی کو شروع ہونے والی خون ریزی روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ، ’میں مانتا ہوں ہمارے پاس آگے بڑھنے کا موقع ہے اور میں اس کی جانب کام کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔‘
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے میں مصر کے کردار کو سراہا۔
خبر رساں ادارے اے پی نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے 11 روزہ فوجی کارروائی کو فوراً روکنے کی منظوری دی۔
رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کا فیصلہ امریکہ کے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق جنگ بندی کی منظوری ایک عہدیدار کے مطابق ’خاموشی کے بدلے خاموشی‘ کی بنیاد پر دی گئی۔
کابینہ اجلاس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے وزیراعظم سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے کشیدگی کم کرنے کے لیے کہا تھا۔

مصر جنگ بندی کے معاہدے کی نگرانی کرے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حماس نے بھی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ 10 مئی کو شروع ہونے والی جنگ کے دوران اسرائیل نے غزہ پر مبینہ طور پر حماس کے انفراسٹرکچر کو ٹارگٹ کرنے کے لیے سینکڑوں فضائی حملے کیے۔ 
حماس اور دیگر شدت پسند گروپوں نے بھی چار ہزار سے زائد راکٹ اسرائیل پر داغے گئے جن میں سے کئی ٹارگٹ پر نہیں پہنچے اور اکثر کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے جمعرات کو کہا کہ وہ کسی بھی وقت اسرائیل اور مشرق وسطیٰ جانے کو تیار ہوں گے۔
یروشلم میں رواں مہینے کے اوائل میں لڑائی کا آغاز ہوا۔ اس دوران فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں ان کے گھروں سے نکالا گیا تاکہ یہودیوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے اور مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

اسرائیلی کابینہ نے فوجی آپریشن کو یکطرفہ طور پر روکنے کی منظوری دی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس اور غزہ میں دیگر اسلامی مسلح گروپوں نے تب سے اسرائیل کی طرف چار ہزار 300 راکٹ داغے ہیں، لیکن ان میں سے گنجان آباد علاقوں کی طرف داغے گئے راکٹوں کو دفاعی نظام کے تحت روک لیا گیا۔
اس جنگ کے دوران تقریباً 230 فلسطینی مارے گئے جب کہ 12 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے۔
قبل ازیں اسرائیل اور مسلح فلسطینی گروپس کے درمیان غزہ میں جاری ہلاکت خیز تصادم کی جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششوں تیز ہوگئی تھی۔
تاہم سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ جمعرات کو غزہ کے جنوبی علاقے رفاہ میں اسرائیلی فضائیہ کے حملوں میں عمارتیں گرد و غبار میں بدلنے کے بعد ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں۔ دوپہر کے بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب فائر کیے جانے والے راکٹ حملوں میں تیزی آئی اور سرحدی علاقے میں رہنے والے شہری پناہ گاہوں کی جانب بھاگے۔

تقریباً 230 فلسطینی مارے گئے اور 12 اسرائیلی بھی ہلاک ہوگئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے جنرل اسمبلی میں کہا تھا کہ اسرائیل فوج اور فلسطینی گروپوں کے درمیان مسلسل حملوں کا تبادلہ ناقابل قبول ہے اور یہ کہ ’لڑائی کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔‘
انتونیو گتریس نے کہا کہ ’اگر زمین پر کوئی جنہم ہے تو وہ غزہ میں رہنے والے بچوں کی زندگی ہے۔‘
اسرائیلی کابینہ کی سکیورٹی اجلاس اس وقت ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے وزیراعظم سے ٹیلی فونک رابطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کہا تھا۔
اس سے قبل وزیراعظم نتن یاہو نے اس عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اپنے مقاصد حاصل کر لیتے جو اسرائیلیوں کی سکیورٹی کے لیے ضروری ہے۔

شیئر: