Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیانا کا انٹرویو: بی بی سی کے سابق سربراہ عہدے سے مستعفیٰ

ٹونی ہال کا کہنا تھا کہ ’مجھے 25 برس پہلے ہونے والے واقعے پر بہت افسوس ہے۔‘ (فوٹو رائل ٹی وی سوسائٹی)
بی بی سی کے سابق سربراہ نے صحافی مارٹن بشیر کی طرف سے لیڈی ڈیانا کا ’دھوکہ دہی‘ سے انٹرویو لینے کا معاملہ ثابت ہونے کے بعد برطانوی نیشنل گیلری کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں لیڈی ڈیانا کو جعلی دستاویزات دکھا کر اور دھوکہ دہی سے انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا جو کہ بی بی سی کی پروڈیوسرز کے لیے طے گائیڈ لائنز کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ٹونی ہال جنہوں نے انٹرویو کے حوالے سے تحقیقات کی تھیں اور بعد میں انہیں بی بی سی کا سربراہ بنایا گیا تھا، نے سنیچر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے نیشنل گیلری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا میں نے دو دن پہلے کہا کہ مجھے 25 برس پہلے ہونے والے واقعے پر بہت افسوس ہے اور مجھے یقین ہے کہ قیادت ذمہ داری لینے کا نام ہے۔‘ ’میرے اندر ہمیشہ لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رہا ہے اور میرے اس عہدے پر رہنے سے اس ادارے پر اثر پڑے گا جس کی میں بہت قدر کرتا ہوں۔‘
برطانوی سپریم کورٹ کے سابق جج لارڈ ڈائیسن کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بی بی سی نے شفافیت اور دیانت داری کے اپنے اعلیٰ معیارات کی پاسداری نہیں کی اور مارٹن بشیر نے بی بی سی کی گائیڈ لائنز کی ’سنگین خلاف ورزی‘ کی۔
جمعرات کو پرنس ولیم اور ہیری نے ایک بیان میں بی بی سی اور صحافی مارٹن بشیر پر سخت تنقید کی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق شہزادہ ولیم نے کہا تھا کہ جس ’دھوکہ دہی‘ سے انٹرویو لیا گیا اس سے ان کے والدین کے رشتے پر ’گہرا اثر‘ ہوا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے پختہ یقین ہے کہ پینوراما پروگرام کی کوئی ساکھ نہیں، یہ دوبارہ کبھی نشر نہیں ہونا چاہیے۔‘
شہزادہ ہیری نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’انکوائری رپورٹ انصاف حاصل کرنے اور سچ تلاش کرنے کی طرف پہلا قدم تھا، لیکن جس دھوکہ دہی کا ذکر ہوا ہے وہ آج بھی جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس غیر اخلاقی اقدام نے میری ماں کی جان لی۔‘

شیئر: