Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ کے تنازع نے فلسطینی اتحاد کا نیا احساس جگا دیا

لوگ متحد ہو کر بیک زبان ایک ہی شناخت پیش کررہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع میں تازہ ترین شدت نے جغرافیائی طور پر بکھری ہوئی فلسطینی برادری کو یکجا کرنے میں مدد دی ہے۔
اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق ناکہ بندی والی غزہ پٹی سے لے کر مقبوضہ مغربی کنارے تک اور منسلک مشرقی بیت المقدس سے یہودی ریاست کے اندر مقیم عرب اسرائیلیوں تک بکھرے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں۔
یکجہتی کی ریلیوں اور خاص طور پر 18 مئی کو یوم غضب کے احتجاج اور عام ہڑتال کے دوران لہراتے فلسطینی پرچموں کا ایک سمندر امڈ آیا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں نہ صرف غزہ پر بمباری کے خلاف بلکہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاریوں میں توسیع کے خلاف بھی انتظامی دفاتر، سکول اور کاروبار بند کیے گئے۔
اس حوالے سے فلسطینی انسٹی ٹیوٹ برائے پبلک ڈپلومیسی کے ڈائریکٹر سالم برحمہ کا کہنا ہے کہ ’ایسا بہت ہم کم ہوتا ہے کہ فلسطینی برادری ایک ساتھ کھڑی نظر آئے۔‘
انہوں نے بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کی ریلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’قومی پیمانے پر ہڑتال اور احتجاج اور اس میں فلسطینی تارکین وطن کی شرکت بلا شبہ تاریخی واقعہ ہے۔‘
وسطی اسرائیل کے شہر لود میں یہودی قوم پرستوں اور عرب نوجوانوں کے درمیان تصادم میں موسیٰ حسونا نامی ایک عرب اسرائیلی ہلاک ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی عرب ان فلسطینیوں کی اولاد ہیں جو سنہ 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد اپنی سرزمین پر ہی مقیم رہے۔

یکجہتی کی ریلیوں کے دوران لہراتے فلسطینی پرچموں کا سمندر امڈ آیا۔  (فوٹو: اہرام)

مقبوضہ مغربی کنارے میں مقیم سالم برحمہ نے کہا کہ ’فلسطینیوں کو ٹکڑیوں میں تقسیم کر کے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر فلسطینیوں کی مکمل شمولیت کہیں نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’غزہ تو غربت کا شکار ہے تاہم مغربی کنارے میں تواتر سے جاری انتفاضہ کے بعد آزاد خیال معاشی پالیسیاں اور ایک متوسط طبقے کا ظہور دیکھنے میں آیا ہے جو بعض اوقات سیاسی طور پر کم مصروف نظر آتا ہے۔‘
تل ابیب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر امل جمال کا اسرائیل میں مقیم عربوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’عرب اسرائیلی، اسرائیل میں اقلیت ہیں جن کی تعداد 20 فیصد ہے۔ وہ انوکھے چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
امل جمال کے مطابق ’اسرائیل میں موجود فلسطینی حقیقت پسند ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، وہ اسرائیلی نفسیات، سیاست، ثقافت کو سمجھتے ہیں۔ وہ عبرانی روانی سے بولتے ہیں۔‘

فلسطینیوں کو سیاسی طور پر حماس اورالفتح کے مابین تقسیم کیا گیا۔ (فوٹو عرب نیوز)

اسرائیل میں فلسطینی اپنے قانونی جواز کے لئے لڑ رہے ہیں۔ وہ سیاسی نظام اور فیصلہ سازی کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے رہنمائی کر سکیں۔
اس حوالے سے ایک محقق اور فلسطینی کارکن مریم برغوتی نے کہا کہ ’وسیع تر کمیونٹی میں ہر شخص اسرائیلی ریاست کے حوالے سے مختلف تجربہ رکھتا ہے اور یہ مختلف طبقات کو الگ تھلگ کرنے کا باعث بنتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تشدد میں حالیہ اضافے کے دوران عرب اسرائیلیوں کو ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑا جوعربوں کے لیے موت کا نعرہ لگا رہے تھے اور فلسطینیوں پر ہتھیاروں سے حملہ کر رہے تھے۔‘
مریم برغوتی نے مزید کہا کہ ’انہیں احساس ہوا کہ یہ صرف مغربی کنارے یا صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک نسلی مسئلہ ہے، نوآبادیاتی مسئلہ ہے، یہ اسرائیلی ریاست کا مسئلہ ہے۔‘

فلسطینی سیاسی نظام اور فیصلہ سازی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس واچ گروپ اور اسرائیل کے بیت سیلم نے حال ہی میں اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ نسلی عصبیت والا نظام چلا رہا ہے۔ تاہم یہودی ریاست نے یہ الزام سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
فلسطینیوں کو سیاسی طور پر حماس اور اس کی حریف الفتح کے مابین تقسیم کیا گیا جس کے باعث ٹوٹے ہوئے گروپ سامنے آئے۔
فلسطینی صدرمحمود عباس نے حال ہی میں 15 سال میں ہونے والے پہلے فلسطینی انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن پھر انہوں نے مشرقی بیت المقدس میں رائے شماری کی پابندیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے غیر معینہ مدت کے لئے انتخابات ملتوی کر دیئے جس کی وجہ سے حماس نے محمود عباس پر بغاوت کا الزام عائد کر دیا۔
فلسطینی انسٹی ٹیوٹ برائے پبلک ڈپلومیسی کے ڈائریکٹر سالم برحمہ کا اس تقسیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’اس تقسیم کے باوجود مشترکہ فلسطینی شناخت کا احساس مضبوط ہوا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ متحد انداز میں باہر نکل رہے ہیں، ایک ہی زبان بول رہے ہیں، ایک ہی نظام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ایک ہی شناخت پیش کررہے ہیں۔‘
’ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ ہمیں بتاتی ہے کہ اتحاد کی ایک شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتحاد مکمل طور پر تشکیل پا گیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ لیکن میرے خیال میں یہ صورتحال کسی نہ کسی چیز کا آغاز ضرور ہے۔‘
 

شیئر: