Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ: ’زیادہ تر صحافیوں نے غیر محفوظ حالات میں کام کیا‘

سنہ 1992 سے 2021 تک اسرائیل اور فلسطین میں 18 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حالیہ تشدد کے دوران غزہ کے کچھ ہی صحافیوں کے پاس ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹیں تھیں۔
 عرب نیوز کے مطابق یہ وہ صحافی تھے جو بین الاقوامی نیوز ایجنسیز اور اچھی ساکھ کے ٹی وی نیٹ ورکس کے لیے کام کرتے ہیں۔
زیادہ تر مقامی صحافیوں نے محصور علاقے میں غیر محفوظ حالات میں کام کیا جس سے ان کی زندگیوں کو حقیقی خطرہ لاحق تھا۔
کئی برسوں سے اسرائیل نے غزہ کو ایسے حفاظتی آلات کی فراہمی کو روک رکھا ہے، جن کی وہ فوجی سامان یا دوہرے استعمال کے مواد کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ یہ حماس یا دوسرے فلسطینی گروہوں تک پہنچ سکتا ہے۔
جنگ کے دور میں ان آلات کے بغیر کام کرنا صحافیوں کے لیے ایک جان لیوا خطرہ ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 1992 سے 2021 تک اسرائیل اور فلسطین میں 18 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن غزہ میں حماس اور اسرائیل کی لڑائی میں کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔
حالیہ جھڑپوں میں تین فوٹو جرنلسٹس حفاظتی جیکٹوں اور ہیلمٹوں کی وجہ سے یقینی موت سے بچ گئے۔

زیادہ تر مقامی صحافیوں نے محصور علاقے میں غیر محفوظ حالات میں کام کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے مصطفیٰ حسن نے جن کے ساتھ ان کے دو ساتھی کار میں سوار تھے جس پر عربی اور انگریزی میں ’پریس‘ لکھا ہوا تھا، بتایا کہ ’ایک اسرائیلی میزائل ان کی گاڑی کے عقبی حصے سے ٹکرایا اور اس کا شارپنل اندر بکھر گیا۔‘
انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ’اگر انہوں نے جیکٹ اور ہیلمٹ نہ پہنا ہوتا تو وہ زندہ نہ ہوتے۔‘ مصطفیٰ حسن کے ساتھی اس حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔
اسامہ الكحلوت ایک فری لانسر صحافی ہیں جو مقامی اور عرب میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پروفیشنل حفاظتی آلات کی کمی کی وجہ سے انہیں کام کے دوران کئی بار خطرات لاحق رہے تھے۔
اسی لیے اسامہ الكحلوت دوسرے صحافیوں کی طرح حفاظتی جیکٹیں سلوانے کے لیے مقامی درزیوں کے پاس گئے لیکن یہ بہت کم تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
اسامہ الكحلوت کے مطابق مقامی طور پر بنی یہ جیکٹیں ’صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا ہیں‘ جو بالکل اصل بلٹ پروف جیکٹوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔‘

بہت سارے مقامی صحافیوں نے مقامی درزیوں سے حفاظتی جیکٹیں سلوائیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ان کا بس یہ ہی فائدہ ہے کہ صحافیوں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں لیکن یہ کوئی حفاظت فراہم نہیں کرتیں کیونکہ ان میں کوئی دھاتیں نہیں لگی ہوتیں۔‘
انہوں نے حفاظتی سامان کی کمی کو دو وجوہات سے منسوب کیا ہے۔ اسرائیلی پابندیاں اور ان کی زیادہ قیمت، جو صحافی اپنی کم تنخواہوں کی وجہ سے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ مقامی طور پر تیار جیکٹ کی قیمت 15 ڈالر ہے جبکہ اصل حفاظتی جیکٹ کی قیمت غذہ سے باہر دو ہزار ڈالر ہے۔ یہ قیمت بیشتر نوجوان صحافیوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔
اس حوالے سے فلسطینی صحافیوں کے سینڈیکیٹ کے نائب صدر تحسين الاسطل کا کہنا ہے کہ ’تنظیم نے غزہ میں صحافیوں کے لیے مختلف ذرائع سے حفاظتی آلات خریدنے کی متعدد کوششیں کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘

شیئر: