Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نشہ آور انجیکشن کی فروخت، میڈیکل سٹور کے مالک کو 10 سال قید

صوبہ پنجاب نے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم 2017 میں کر لی تھی جبکہ باقی صوبے ابھی قانون سازی کے مرحلے میں ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے شہر لاہور کی ایک عدالت نے نشہ آور انجیکشن فروخت کرنے والی فارمیسی کے مالک سمیت تمام عملے کو مجموعی طور پر 40 سال کی سزا سنائی ہے۔
ڈرگ قوانین میں ترمیم کے بعد ملک میں یہ پہلی سزا سنائی گئی ہے۔ سزا ڈرگ کورٹ کے چیئرمین محمد نوید رانا نے سنائی۔
33 صفحات کے فیصلے میں عدالت نے نہ صرف سٹور کے مالک محمد ارشد بلکہ اس میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے فارماسسٹ اور تمام سٹاف کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی ہے۔ 
چیئرمین ڈرگ کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’اس میڈیکل سٹور پر ڈرگ انسپکٹر کے معائنے کے بعد ایسے انجیکشنز برآمد ہوئے جو نشہ آور تو تھے ہی جعلی بھی تھے۔ جو کمپنی یہ انجیکشن بناتی تھی وہ 2012 میں بند ہوچکی ہے۔‘
’اس کے باوجود اسی نام کے ساتھ انجیکشن کو جعلی طور پر بنانے میں میڈیکل سٹور کے مالک سمیت تمام عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت عدالت رکھے گئے جس کے ٹرائل کے بعد یہ جرم ثابت ہوا۔‘
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’نہ صرف سٹور پر ایسے ممنوعہ انجیکشن بیچے جا رہے تھے بلکہ بہت بڑی مقدار میں گوداموں میں ذخیرہ کیے گئے انجیکشنز بھی برآمد ہوئے۔‘
مقدمے کے پراسیکیوٹر ندیم ظفر وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پراسیکیوشن نے عدالت میں مقدمے کو ثابت کیا ہے اور تمام ثبوتوں کی پرکھ کے بعد عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ وہی انجیکشن بنائے جا رہے تھے جو چوکوں اور چوراہوں میں آپ کو نشے کے عادی افراد استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سٹور پر ممنوعہ انجیکشنز بیچے جا رہے تھے (فوٹو: فری پک)

عدالتی فیصلے کے مطابق فارمیسی کے مالک محمد ارشد کو 10 سال قید اور اڑھائی کروڑ روپے جرمانہ، سیلز مین محمد نثار کو سات سال قید دوکروڑ پچپن لاکھ روپے جرمانہ، احمد علی اور اویس رضا کو 10،10 سال قید اور چار کروڑ 70 لاکھ روپے جرمانہ اور سٹور پر کام کرنے والے فارمسسٹ عبدالوہاب کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ اگر مجرمان نے جرمانے ادا نہ کیے تو انہیں مزید چھ ماہ سے ایک سال تک قید کی سزا کاٹنا ہوگی۔ 
خیال رہے کہ پاکستان میں 1976 سے ڈرگ ایکٹ نافذ ہے جس میں جعلی اور ممنوعہ ادویات بنانے اور بیچنے کے خلاف معمولی سزائیں موجود تھیں۔
پراسیکیوٹر ندیم ظفر وڑائچ کے مطابق ’اس سے پہلے اسی ہی جرم کی سزا چند لاکھ روپے جرمانہ یا زیادہ سے زیادہ تین سال قید تھی۔ اکثر عدالتیں جرمانے کی سزا ہی سنا دیتی تھیں۔ یہ جن مجرموں کو سزا ہوئی ہے اس کے مالک پر پہلے بھی دو مقدمے چلائے گئے لیکن اس وقت سزا صرف جرمانہ ہی تھی۔‘ 
ندیم ظفر نے مزید بتایا کہ ’2017 میں جو ترمیم کی گئی اس میں اس سزا کو بڑھا کر 10 سال قید اور پانچ کروڑ روپے جرمانہ کر دیا گیا ہے، اور اس میں ایسی مزید شقیں شامل کر دی گئی ہیں کہ اب ممنوعہ ادویات کو اتنی آسانی سے نہیں بیچا جاسکتا جو پریکٹس اس سے پہلے ہو رہی تھی۔‘
’یہ اس نوعیت کی سنگین سزاؤں کا پاکستان میں پہلا مقدمہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقدمے کو چلانے میں عدالت کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی کیونکہ اس سے پہلے بڑی عدالتوں میں اس طرح کی سزاؤں کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔‘

عدالتی فیصلے کے مطابق فارمیسی کے مالک محمد ارشد کو 10 سال قید اور اڑھائی کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا ہے (فوٹو: فری پک)

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب نے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم 2017 میں کر لی تھی جبکہ باقی صوبے ابھی قانون سازی کے مرحلے میں ہی ہیں۔ پنجاب میں مجموعی طور پر پانچ ڈرگ کورٹس ہیں جن کے ججز کو چیئرمین ڈرگ کورٹ کہا جاتا ہے۔
ڈرگ کورٹس سے اب تک کی سخت ترین سزائیں پانے والے یہ مجرمان ابھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکیں۔ 

شیئر: