کدو کو سُوکھا کر اس سے آلاتِ موسیقی اور ظروف مثلاً ڈوئی،پیالہ و صراحی وغیرہ بھی بناتے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
یوں تو علامہ اقبال کے اس شعر میں لفظ بادہ اور مدرسہ بھی قابلِ بحث ہیں، تاہم اس وقت ہمیں 'کدو' کا ذکر مطلوب ہے۔ یہ لفظ فارسی میں 'کَدُو' اردو میں 'د' پر تشدید کے ساتھ 'کَدُّو' ہے۔
'کدو' ایک عام سبزی ہے۔ ترکاری اور رائتہ کے علاوہ اس کا حلوا بھی بنایا جاتا ہے۔ کدو کو سُوکھا کر اس سے آلاتِ موسیقی اور ظروف مثلاً ڈوئی،پیالہ و صراحی وغیرہ بھی بناتے ہیں۔ اس حوالے سے 'کدو گھرانے' میں شامل کدو بطری (bottle gourd) زیادہ مشہور ہے جو بھلے وقتوں میں جہاں گشت درویشوں اور رشیوں کے لیے چھاگل کا کام دیتا تھا۔
فارسی و اردو شاعری میں ساغر و مینا، جام و سبو اور پیالہ و صراحی کے ساتھ ساتھ 'کدو' کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اسے اوپر درج شعرِ اقبال کے علاوہ فارسی غزل کے سب سے بڑے شاعر حافظ شیرازی کے ہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے،جو کہہ گئے ہیں:
ساقی بہ چند رنگ می اندر پیالہ ریخت
این نقشہا نگر کہ چہ خوش در کدو ببست
یعنی ساقی نے چند رنگوں کی شراب پیالے میں انڈیلی، دیکھو یہ نقوش کدو میں کس قدر بھلے معلوم ہو رہے ہیں۔
رنگ کے ذکر سے خربوزہ یاد آگیا جو دوسرے خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، اور چھری پر گرے یا چھری اس پر گرے ہردو صورتوں میں نقصان اٹھاتا ہے۔
خربوزہ فارسی لفظ ہے جس کی دیگر صورتیں 'خربوز، خربُز اور خرپزہ' ہیں۔ یہ دو لفظوں 'خر' اور 'بزہ' سے مرکب ہے، 'خر' کے معنی 'بڑا' اور 'بُزہ' کے معنی 'خوش بو دار' ہے۔ یوں 'خربُزہ' کے معنی 'بڑا اور خوشبودار' ہوئے۔ خربوزہ انگریزی میں melon کہلاتا ہے۔
ایران و وسط ایشیاء میں خربوزے مختلف رنگ و حجم کے ہوتے ہیں، کسی زمانے میں 'خوارزم' کے خربوز مشہور تھے۔ ممکن ہے اب بھی ہوں کہ ہم کبھی خوارزم نہیں گئے، تاہم وہاں کے خربوزوں کی خوبی کا پتا نویں صدی ھجری کے فارسی گو شاعر 'بسحاق أطعمہ' کے درج ذیل شعر سے ہوتا ہے:
چہ بگویم صفت خربزۂ خوارزمی
کہ نظیرش نبود در ہمہ چین و بلغار
یعنی خوارزمی خربوزے کی خوبی کیا بیان کروں کہ اس کی نظیر چین و بلغار (دنیا) میں نہیں ملتی۔
ہمارے ہاں خربوزے کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کی مٹھاس کا اندازہ اسے سونگھ کر کیا جاتا، اس چکر میں کتنے ہی دانا برسرِ بازار قوتِ شامَّہ کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے بعد بھی گھر پھیکا خربوزہ لے جاتے ہیں۔
خربوز کا ہم قبیلہ ایک پھل 'تربوز' ہے۔ 'تربوز یا تربُز' بھی فارسی ترکیب ہے جس میں 'تر' کا سابقہ اس پھل کے مرطوب و نمناک (پانی سے بھرے) ہونے کا پتا دیتا ہے، اسی لیے یہ پھل فارسی میں 'تربوز' اور انگریزی میں 'watermelon' کہلاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 'تربوز' فارسی میں 'ہندوانہ' کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ لفظ 'ہندوانہ' کی اصل 'ہندویانہ' ہے۔ اس لفظ میں 'یانہ' کلمہِ نسبتی ہے جسے عامیانہ اور باغیانہ وغیرہ کے الفاظ سے سمجھا جا سکتا ہے، چونکہ یہ پھل سرزمین ہند سے ایران پہنچا تھا اس لیے اس نے 'ہند' کی نسبت سے 'ہندویانہ' نام پایا۔ اس 'ہندویانہ' کی تخفیف 'ہندوانہ اور ہندانہ' ہیں۔ جب کہ فارسی کے تہرانی لہجے میں اسے 'ہندونہ' اور بختیاری لہجے میں 'ہِنونہ' کہتے ہیں۔ فارسی کے زیر اثر پنجابی میں اس پھل کو 'دوانہ / دوآنڑاں' کہا جاتا ہے۔
فارسی ہی میں ہندوانہ (تربوز) کا ہم قبیلہ و ہم شکل ایک پھل 'ہندوانہ ابوجہل' کہلاتا ہے، اس کے علاوہ اسے 'خربزهٴ ابوجہل' بھی کہتے ہیں۔
اس پھل کو ہندوانہ اور خربوزے سے نسبت دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ کچا ہوتا ہے تو چھوٹا ہونے کے باوجود دِکھنے میں ہندوانہ (تربوز) معلوم ہوتا ہے اور پکنے پر زرد ہونے کے سبب خربوزے جیسا ہوجاتا ہے۔
جہاں تک اسے 'ابو جہل' قرار دینے کی بات ہے، تو عرض ہے کہ ہندوانہ کا ہم شکل یہ پھل انتہائی تلخ ہوتا ہے، اطباء اس کا استعمال ادویہ میں کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں اسے مریض کے تلوؤں پر رگڑا جاتا ہے، جس کی تلخی زبان پر محسوس ہوتی ہے۔ اسی تلخی کے سبب اس پھل نے 'ہندوانہ ابوجہل' اور 'خربزهٴ ابوجہل' کا نام پایا ہے۔
عربی میں اس کڑوے پھل کو 'حنظل' اور اردو میں 'اندارئن' اور'تونبا' کہتے ہیں جب کہ اپنی کڑواہٹ کے سبب یہ پنجابی میں 'کوڑتمّہ' کہلاتا ہے۔