Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین کے 'خلائی خواب' کی تعبیر، سپیس سٹیشن کے لیے مشن روانہ

چین نے خلا میں اپنا سکہ منوانے کے لیے اربوں خرچ کیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تین خلابازوں کی جمعرات کو چین کے خلائی سٹیشن کے لیے روانگی ملک کے خلائی عزائم کی تکمیل کے لیے اہم قدم ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت نے 2022 تک مستقل عملے کے ساتھ سپیس سٹیشن قائم کرنے اور انسانوں کو چاند پر بھیجنے کی امید کے ساتھ اپنی فوج کے زیر انتظام چلنے والے سپیس پرواگرم پر اربوں خرچ کیے ہیں۔
چین نے اس ضمن میں امریکہ اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے طویل سفر طے کیا ہے۔ واضح رہے کہ روس اور امریکہ کے خلا بازوں کا خلا میں دہائیوں کا تجربہ ہے۔
جب 1957 میں سوویت یونین نے سپتنک خلا میں پھیجا تھا اس وقت چینی رہنما نے اعلان کیا تھا کہ چین بھی مصنوعی سیارے بنائے گا۔
اس کام میں ایک دہائی لگی لیکن 1970 میں چین نے اپنا پہلا سیٹلائٹ خلا میں بھیجا۔
اس کے بعد خلا میں انسانی پرواز بھیجنے میں چین کو مزید کئی دہائیاں لگیں۔ سال 2003 میں ینگ لیوی خلا میں جانے والے پہلے چینی شخص تھے۔
صدر شی جن پنگ  کی سربراہی میں چین کے 'خلائی خواب' کے منصوبوں میں تیزی آئی ہے۔

خلائی سٹیشن کے علاوہ چین چاند پر بھی ایک بیس تعمیر کرنا چاہ رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

خلائی سٹیشن کے علاوہ چین چاند پر بھی ایک بیس تعمیر کرنا چاہتا ہے  اور ملک کی نیشنل سپیش ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ وہ 2029 تک چاند پر عملے کے ساتھ ایک مشن بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
چینی سپیس سٹیشن کا نام تیانگونگ ہے اس کا مطلب 'آسمانی محل' ہے اور اسے کل 11 مشن کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مزید حصے لا کر انہیں مدار میں جوڑا جا سکے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ مکمل ہونے کے بعد سپیش سٹیشن کم از کم 10 سالوں تک کرہ ارض سے 400 سے 450 کلومیٹرز اوپر مدار رہے گا۔

شیئر: