Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والا کوہ پیما

کم ہانگ بن پاکستان کی براڈ پیک چوٹی سر کرنے کی مہم پر نکل چکے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
دونوں ہاتھوں کی 10 انگلیوں سے محروم کوہ پیما کم ہانگ بن پاکستان کی براڈ پیک چوٹی سر کرنے کے مشن پر روانہ ہو چکے ہیں۔ اپنے مشن میں کامیابی کی صورت میں وہ معذوری کے باوجود 14 بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے دنیا کے پہلے کوہ پیما بن جائیں گے۔
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ کم ہانگ بن آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سر کرنے کی اپنی مہم کے آخری مشن کے سلسلے میں گذشتہ ہفتے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں سے براستہ سڑک وہ سکردو گئے اور اپنے مشن کا آغاز کیا۔ وہ 8047 میٹر بلند براڈ پیک کو سرکرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلام آباد میں ان کی میزبانی الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری نے کی اور ان کے مشن پر روانہ کرتے ہوئے ان کی کامیابی اور حفاظت سے واپسی کے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
کرار حیدری کے مطابق ’کم ہانگ بن 2012 میں کے ٹو اور 2017 میں نانگا پربت سر کر چکے ہیں۔ انھیں پاکستان کے پہاڑوں سے لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کی مہم کے سلسلے میں آخری چوٹی سر کرنے کے لیے پاکستان کی براڈ پیک کا انتخاب کیا حالانکہ براڈ پیک دنیا کی 12 ویں بلند ترین چوٹی ہے۔
دنیا کے 14 بلند ترین یعنی آٹھ ہزار سے بلند ترین چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گیشربرم ون اور ٹو اور براڈ پیک شامل ہیں۔
اردو نیوز نے الپائن کلب آف پاکستان کے ذریعے جنوبی کوریا کے کوہ پیما سے رابطے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے مشن پر روانہ ہو چکے ہیں اور اس وقت بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہیں تاہم اردو نیوز کے پیغام کے جواب میں کم ہانگ بن نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ جس میں وہ اپنے شوق اور مشن کو اپنے خوابوں کی تعبیر کی بتاتے ہیں۔

1991 میں الاسکا میں ایک چوٹی سر کرنے کی کوشش میں کم ہانگ حادثے کا شکار ہو کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھو بیٹھے تھے۔ (فوٹو: فیس بک، کم ہانگ بن)

کم ہانگ بن نے کہا کہ ’میں 1991 سے انگلیوں سے محروم ہونے کے باوجود کوہ پیمائی کر رہا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی پہاڑوں میں گزار دی کیونکہ وہ اپنے خوابوں میں بھی پہاڑ ہی دیکھا کرتا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’پہاڑ نے مجھے میں ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم کیا تھا اورمیں نے پہاڑ سر کرنے کو چیلنج بنا کر اس معذوری کو شکست دے دی۔ معذوری کی وجہ سے آنے والی مشکلات نے مجھے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار کیا جو شاید ناممکن تھا۔ اگر میرے ساتھ حادثہ پیش نہ آیا ہوتا تو میں ایک عام کوہ پیما ہوتا۔
1991 میں الاسکا میں ایک چوٹی دینالی سر کرنے کی کوشش میں کم ہانگ بن ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ دی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے وہ بغیر انگلیوں کے پہاڑ سر کر رہے ہیں۔

کم ہانگ بن 2012 میں کے ٹو اور 2017 میں نانگا پربت سر کر چکے ہیں (فوٹو: فیس بک، کم ہانگ بن)

کم ہانگ بن کا مزید کہنا تھا کہ ’انسان کے خواب اس کی زندگی سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ زندگی سہارے کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے لیکن خوابوں ادھورا چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا۔
انھوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سر کرنے کا آغاز بھی 2006 میں پاکستان سے کیا تھا جب انھوں نے گیشربرم ٹو کو سر کیا۔ اسی سال انھوں نے شیشہ پنگمہ بھی سر کر لی تھی۔ 2007 میں کم ہانگ بن ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے کوہ پیماؤں میں شامل ہوگئے جبکہ اس سے اگلے ہی سال یعنی 2008 میں وہ نیپال کی تیسری بڑی چوٹی مکالو بھی سر کر چکے تھے۔
ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد یعنی سال 2009 کے آغاز میں کم ہانگ بن براعظم انٹارکٹیکا میں ماؤنٹ ونسن کو سر کرکے تین سال کے عرصے میں دنیا کے تمام براعظموں میں سات بلند ترین چوٹیاں سرکرنے کا اعزاز اپنے نام کر چکے تھے۔

براڈ پیک سر کرنے پر وہ معذوری کے باوجود 14 بلند ترین چوٹیاں سرکرنے والے دنیا کے پہلے کوہ پیما بن جائیں گے (فوٹوِ: فیس بک، کم ہانگ)

اس کے بعد بھی انھوں نے آٹھ ہزار میٹر سے  بلند چوٹیاں سرکرنے کا مشن جاری رکھا اور 2009 میں نیپال میں دھولگری اور 2011 میں چواویو، 2012 میں پاکستان میں کے ٹو اور 2013 میں نیپال کی کنگچنجنگا، 2014 میں مناسلو، 2017 میں لہوٹسے اور نانگا پربت، 2018 میں انا پورنا اور 2019 میں گیشربرم ون سر کیں۔
خیال رہے کہ دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیا سر کرنے والوں کی تعداد 43 ہے جن میں ایک اطالوی جوڑے سمیت چار خواتین شامل ہیں۔ خواتیں میں سے ایک تیز ترین ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے والی نیپالی کوہ پیما منگما گیابو شرپا بھی شامل ہیں۔ جن کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔
سب سے پہلے اکتوبر 1986 میں اطالوی کوہ پیما رین ہولڈ میسنر نے دنیا کی 14 آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سر کی تھیں۔ جس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا۔

شیئر: