Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توہین آمیز مواد نہ ہٹایا گیا تو ویب سائیٹ بلاک کی جائے: لاہور ہائیکورٹ

توہین آمیز مواد کے حوالے سے حکومت پی ٹی اے کے زیر نگرانی آئی ٹی ماہرین پر مشتمل سپیشل سیل تشکیل دے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
لاہور ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا سے توہین آمیز مواد ہٹانے سے متعلق درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ غیر مناسب مواد کے حوالے سے اگر کوئی شکایت نہ آئے تو پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) خود مواد چیک کر کے قانون کے مطابق کاروائی کرے۔
چیف جسٹس قاسم خان کی جانب سے لکھے گئے 12 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے بار ہا یہ سوال پوچھا کہ اگر فیس بک توہین آمیز مواد شیئر کرنے والے پیجز کو بلاک کرنے سے انکار کرے یا توہین آمیز مواد پھیلانے کے لیے نئے پیجز بنائے جائیں جو کہ آئین پاکستان اور قانون کے خلاف ہے جس سے پاکستان کی سالمیت پر بھی زد پڑ سکتی ہے تو کیا ایسی صورت میں ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے؟
 تفصیلی فیصلے کے مطابق پی ٹی اے کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ اگر مناسب وقت کے اندر متعلقہ پلیٹ فارم کی طرف سے ایسے مواد کو ہٹانے کے لیے کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو پی ٹی اے ایسے تمام سائیٹس فوری طور پر بلاک کرے گا۔
عدالت نے حکم دیا کہ توہین آمیز مواد کے حوالے سے حکومت پی ٹی اے کے زیر نگرانی آئی ٹی ماہرین پر مشتمل سپیشل سیل تشکیل دے۔
عدالت نے حکم دیا کہ پیغمبر اسلام کے ناموس کے حوالے سے پرائمری سے ماسٹرز تک نصاب میں مضمون شامل کرے۔
عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے اداروں  کے دفاتر پاکستان میں بنوانے پر زور دے تاکہ ان سے کاروائی کے لیے بات چیت ہو سکے۔
عدالت نے پی ٹی اے کو غیر مناسب مواد کی روک تھام کے لیے فوری کاروائی کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے حکومت آفیشل ویب سائٹ ڈیزائن کرے جہاں قران ،حدیث سے متعلق مستند آرٹیکل اپلوڈ کیے جائیں۔ آفیشل ویب سائٹ پر پورٹل بنایا جائے جہاں مستند اسلامی ویب سائیٹس اور پیجز کے لنک موجود ہوں۔
توہین آمیز مواد کے حوالے سے ہونے والی کاروائی کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے تاکہ لوگوں کو آگاہی ملتی رہے۔‘
عدالت نے حکم دیا کہ آفیشل ویب سائٹ کی سوشل میڈیا اور میڈیا میں تشہیری مہم چلائے۔
 

شیئر: