Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘

لیبیا میں دسمبر میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات طے ہیں۔ (فوٹو: یو این سپورٹ مشن لیبیا)
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا کہنا ہے کہ ’بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر‘ شمالی افریقی ملک کو متحد کر سکنے والے لیبیائی انتخابات میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جمعرات کو جان کوبس کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سلامتی کونسل بھی خبردار کر چکی ہے کہ جو بھی فرد یا گروپ انتخابی عمل کو متاثر کرے گا اسے اقوام متحدہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے کونسل کی وزرا کی سطح کی میٹنگ کو بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ لیبیا کے متعلق متعدد اہم کرداروں سے بات چیت کی ہے، ان میں سے سبھی دسمبر میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے پرامید ہیں۔ تاہم ’انہیں خدشہ ہے کہ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے کہے ہوئے پر عمل نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد پر مشتمل 75 رکنی لیبیائی پولیٹیکل ڈائیلاگ فورم کی ناکامی کی جانب اشارہ کیا۔ جو انتخابات کے حوالے سے کسی قانونی طریقہ کار پر متفق نہیں ہو سکا، اس سے تیل سے مالا مال ملک میں ایک دہائی سے جاری تنازع ختم ہونے کی امید خطرے میں پڑ گئی ہے۔
انہوں نے گذشتہ اکتوبر میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت غیرملکی فورسز اور جنگجوؤں کے لیبیا نہ چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے مشرق اور مغرب کو ملانے والی ساحلی سڑک نہ کھلنے کے معاملے کی بھی نشاندہی کی جو سیزفائر کے تحت طے کیا گیا تھا۔
نیٹو کی پشت پناہی کے ساتھ لیبیا میں آنے والے انقلاب نے طویل عرصے سے اقتدار پر براجمان معمر قذافی کو 2011 میں بے دخل کیا تھا۔ اس مرحلے پر تیل سے مالا مال ملک ملک عملا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا، ایک اقوام متحدہ کی حمایت رکھنے والی حکومت جو دارالحکومت طرابلس میں موجود ہے جبکہ مخالف قوتوں نے ملک کے مشرق کو اپنا مرکز بنایا۔ دونوں گروہوں کا بیرونی حکومتوں اور مسلح گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔
اپریل 2019 میں مشرقی گروپ کے کمانڈر خلیفہ حفتر اور ان کی فورسز، جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے نے طرابلس کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا۔
14 مہینوں پر مشتمل ان کی مہم اس وقت ناکام ہوگئی جب ترکی اقوام متحدہ کی حمایت رکھنے والی لیبیائی حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوج اور ہزاروں شامی جنگجوؤں کو سامنے لایا۔ 
اس معاملے کے بعد گذشتہ برس اکتوبر میں جنگ بندی ک سمجھوتہ ہوا اور ایک ماہ بعد تیونس میں انتخابات کا طریقہ کار طے کیا گیا جس میں عارضی حکومت کا قیام بھی شامل تھا۔

جان کیوبس نے فورم کے ارکان سے توقع ظاہر کی کہ وہ اپنے اختلافات ایک جانب کر کے الیکشن سے متعلق سمجھوتے پر متفق ہوں جسے ایوان نمائندگان فورا اپنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’مفاد پرست گروہوں، بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر اور مسلح گروہوں کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ لیبیا کی ریاست اور اداروں کی خودمختاری، استحکام اور اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔‘
سلامتی کونسل کی جانب صدر کے ایک بیان کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے جس میں ہائی نیشنل الیکشن کمیشن کو ’مناسب وقت اور وسائل کی فراہمی‘ کے لیے فوری اقدامات اور قانون سازی کا کہا گیا تھا۔
لیبیا کے عبوری وزیراعظم عبدالحامد نے 24 دسمبر کے ’تاریخی‘ انتخابات سے متعلق حکومتی عزم دہراتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ انتخابات کے لیے ضروری قوانین اور آئینی بنیادیں مہیا کی جائیں۔‘
کونسل کی جانب سے زور دیا گیا کہ اگر سکیورٹی کونسل کی نگران کمیٹی نے کسی فرد یا ادارے کے متعلق یہ پایا کہ وہ لیبیا کے امن، استحکام اور سلامتی کے خلاف کسی کام میں ملوث یا اس کی معاونت کر رہے ہیں تو انہیں اقوام متحدہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
سلامتی کونسل نے تمام ملکوں، لیبیائی گروہوں اور ’متعلقہ عناصر‘ سے توقع کی کہ سیزفائر معاہدے پر بشمول ’غیر ملکی فورسز اور جنگجوؤں کے فوری انخلا‘ پر فوری عمل کیا جائے۔
جان کیوبس نے خبردار کیا کہ غیرملکی فوجوں کی مستقبل موجودگی سیزفائر کے لیے خطرہ ہے۔

ان کے مطابق ’لازم ہے کہ لیبیا اور عالمی قوتیں جنگجوؤں اور غیرملکی فوجوں کے انخلا پر متفق ہوں۔ اس معاملے سے متعلق ابتدائی علامتیں حوصلہ افزا ہیں لیکن ٹھوس اقدامات اور معاہدے مطلوب ہیں۔‘
کونسل کی صدارت رکھنے والے فرانس کے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ 24 دسمبر کی الیکشن تاریخ اہم ہے، اسے مدنظر رکھ کر بیرونی عناصر کے انخلا کے لیے اوقات کا فوری تعین ہونا چاہیے۔
فرانس نے تجویز دی کہ دو کیمپوں سے شامی جنگجوؤں کے انخلا کا عمل آئندہ ہفتے میں جتنا جلد ہو شروع کیا جائے۔
جان کیوبس کے مطابق ہر گروہ کے پانچ ارکان پر مشتمل مشترکہ ملٹری کمیشن سیز فائر پر عمل اور سیاسی پیش رفت کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر سیاسی تسلسل جمود کا شکار رہتا ہے تو یہ اہمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘

شیئر: