سپریم کورٹ کے دو ججوں کے مستعفی ہونے کے غیر معمولی فیصلے پر رائے عامہ منقسم ہے۔ کچھ حلقے جسٹس منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ کے فیصلے کو اصول پسندی، ارفع مقاصد کے لیے قربانی اور نقصان دہ قانون سازی پر احتجاج جیسے تصورات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
مگر دوسری جانب جوڈیشل ایکٹیوزم اور سیاسی معاملات میں حد سے بڑھی ہوئی عدالتی مداخلت کے دلائل رکھنے والے سیاسی اور صحافتی حلقے اسے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں
اعلیٰ عدلیہ کے مستعفی ججڑ کی جانب سے 27ویں ترمیم کو عدلیہ پر حملہ قرار دے کر استعفی دینے کے فیصلے کو تاریخ کیسے دیکھے گی؟
اس سوال کو چھوڑ کر ہم ماضی میں سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے ججوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے عہدے سے الاگ ہونے والے ججوں میں منصور شاہ اور اطہر من اللہ کا نام ایک حوالے سے باقیوں سے مختلف ہے کہ ان کے استعفے کی وجوہات آئین میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔
ماضی میں ججوں کی سپریم کورٹ سے رخصتی کی وجوہات میں پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھانا یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے نتیجے میں اخلاقی اور قانونی بنیادوں پر استعفی دینا شامل ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی عدلیہ سے اکٹھے دو ججوں کی رخصتی کا واقعہ اس سے قبل 31 جولائی 2009 کو پی سی او ججوں کے خلاف سپریم کورٹ کے 14 رکنی بیج کے فیصلے کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ججوں کو گھر بھیجا
تین نومبر دو ہزار سات کو پرویز مشرف کی طرف سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کے بعد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو پی سی او تحت نیا حلف لینے کا کہا گیا۔ بعد میں افتخار محمد چوہدری اور ساتھی ججوں کی بحالی کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ کے قریب ججوں کے حلف کو غیر آئینی قرار دیا گیا جن میں سپریم کورٹ کے 10 ججز بھی شامل تھے۔
31 جولائی 2009 کو سپریم کورٹ کے چودہ رکنی بینچ کے اس فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ کے دو ججوں فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس جاوید بٹر نے سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
بقیہ آٹھ ججوں کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک اور بینچ میں توہین عدالت کی کاروائی کا آغاز ہوا۔
اس کیس کی طویل مدت تک التواء کے باعث پی سی او ججز کی ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا۔ بعد کی سماعتوں میں سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بی سی او ججز نے کورٹ سے معافی مانگ لی تھی۔
ماضی قریب میں عدالتی فیصلے کی وجہ سے سپریم کورٹ کو الوداع کہنے کی دوسری مثال جسٹس اقبال حمیدالرحمان کی ہے جو آج کل وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ہیں۔
انھوں نے اکتوبر 2016 میں سپریم کورٹ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ برس قبل کی گئی انتظامی عملے کی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دینے کی بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ عدالتی حکم نامے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
وہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد قائم ہونے والی اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے۔ ان کے دور میں ہونی والی تقرریوں کی شفافیت کا تنازع اُٹھ کھڑا ہوا اور معاملہ سپریم کورٹ چلا گیا۔
جسٹس اقبال حمیدالرحمان بنگال سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس حمود الرحمان کے فرزند ہیں۔ ان کے اصول پسندانہ قدم کی تحسین کرتے ہوئے ممتاز وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ اس استعفے سے لوگوں کے اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی اپنے ساتھی ججوں کے فیصلے کی وجہ چیف جسٹس کے منصب سے محروم ہو گئے تھے۔ انیس سو چیھانوے میں جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے چیف جسٹس بننے کی اہلیت کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ دیا تھا جو الجہاد ٹرسٹ کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک برس بعد سجاد علی شاہ نے نواز شریف حکومت کی جانب سے آئین میں کی گئ تیرھویں ترمیم معطل کردیا تھا۔ جس سے عدالتی تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسی دوران الجہاد ٹرسٹ کیس کو بنیاد بنا کا سپریم کورٹ کے بینچ نے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
بدعنوانی کے الزامات میں برطرفی کی واحد مثال
گزشتہ برس کے آغاز پر سپریم کورٹ کے ایک اور سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہو گئے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ کے برعکس انہوں نے 11 جنوری 2024 کو صدر مملکت کے نام اپنے استعفے کے خط میں انھوں نے اپنے فیصلے کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا۔ محض یہ الفاظ لکھے تھے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پہ کام نہیں کر سکتے۔
جسٹس اعجاز سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن کی حثیت سے آپنے ساتھی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف کرپشن کی شکایات کی سماعت کے فیصلے سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے کونسل کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
چند دنوں بعد جسٹس نقوی نے بھی آپنے خلاف بدعنوانی کی نو شکایات کے جوڈیشل کونسل میں زیر بحث آنے پر استعفیٰ دے دیا تھا مگر مستعفی ہونے سے ان کی گلو خلاصی نہ ہو سکی۔ اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ ’اگر کوئ جج ادارے کی ساکھ کو تباہ کر کے گھر چلا جائے اور اس کے خلاف کارروائی نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔‘
سپریم جوڈیشل کونسل نے استعفی کے باوجود کارروائی جاری رکھی اور 20 مارچ 2024 کو انہیں برطرف کر دیا۔ مظاہر اکبر نقوی سپریم جوڈیشل کونسل کے ہاتھوں بر طرف ہونے والے سپریم کورٹ کے واحد جچ ہیں۔
ان سے قبل سپریم کورٹ کے جج کے خلاف جوڈیشل کونسل میں شکایات کی سماعت اور تحقیقات پر مستعفی ہونے کا ایک اور واقعہ موجود ہے۔
سپریم کورٹ کے جج پر جعل سازی کا الزام
اس واقعے کا تعلق کس نہ کسی انداز میں سپریم کورٹ کو الوداع کہنے والے جسثس اطہر من اللہ سے بنتا ہے۔ 45 برس قبل سپریم کورٹ سے ان کے سسر نے بھی اسی طرح استعفیٰ دے کر رخصت کی راہ لی تھی۔
مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جسٹس غلام صفدر شاہ کو نہ صرف جعلسازی اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ انہیں ملک سے فرار بھی ہونا پڑا تھا۔
16 اکتوبر 1980 کو سپریم کورٹ کے حاضر جج جو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے تھے، نے جعلی تعلیمی سرٹیفکیٹ اور تاریخ پیدائش کے ریکارڈ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں نے اپنے ججوں کو گھر بھیجا۔
جسٹس غلام صفدر شاہ سپریم کورٹ کے اس سات رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی تھی۔
وہ ان تین ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
حالیہ عرصے میں اسلام اباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی تعلیمی ڈگری کے بارے میں میڈیا میں قیاس آرائیوں پر مبنی خبریں چھپتی رہی ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال جسٹس غلام صفدر شاہ کوبھی درپیش تھی۔ مارچ 1979 میں ان کے حوالے سے اخبارات میں الزامات پر مبنی خبریں چھپنا شروع ہو گئی جن میں کہا گیا کہ ان کی انٹرمیڈیٹ کی سند جعلی ہے۔
اور یہ کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنا عرصہ ملازمت بڑھانے کے لیے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر اپنی عمر میں دو سال کی کمی کی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے ساتھ طویل عرصے تک چیف آف سٹاف رہنے والے جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’خاکی شیڈوز‘ میں اس تنازعے کی تفصیل اور اس وقت کی حکومت کا موقف تفصیل سے بیان کیا ہے۔
جسٹس غلام صفدر شاہ پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کے سماعت کے دوران میڈیا کے نمائندوں کو کیس کے بارے میں ساتھی ججز کے خیالات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ان کے خلاف الزامات کی تحقیق کے لیے یہ معاملہ ایف آئی اے کو بھیجا گیا۔
ایف آئی اے نے اپنی تحقیق میں قرار دیا کہ انہوں نے سندھ مسلم لا کالج میں داخلہ لیتے وقت جو اپنا تعلیمی ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان ہولکر کالج اندور سے پاس کیا تھا۔
ان کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ انہوں نے ایف اے کا امتحان ہی نہیں دیا تھا۔ لاء کالج میں داخلے کے لیے انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا جو سرٹیفیکیٹ پیش کیا وہ امین خان نامی کسی شخص کے نام جاری ہوا تھا
مذکورہ شخص کراچی پولیس میں ملازم تھا اور ان سے غلام صفدر کی شناسائی کراچی ایئرپورٹ پر ملازمت کے دوران ہوئی ۔ جہاں وہ پر وہ برما شیل کمپنی میں فیولنگ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔
جنرل کے ایم عارف کے مطابق ہندوستان کے شہر اجمیر کے انٹرمیڈیٹ بورڈ سے ان کے انٹرمیڈیٹ کے سرٹیفکیٹ کی نقول سرکاری طور پر منگوائیں گئی تھیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ سرٹیفکیٹ امین خان کے نام پر جاری ہوا تھا۔
ان کے خلاف مبینہ الزامات کا دوسرا ثبوت یہ پیش کیا گیا کہ ان کے دعوے کے مطابق وہ 1940 میں ہلکور کالج کے ریگولر طالب علم کے طور پر تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے ایسی دستاویزات پیش کی گئیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس عرصے میں انہوں نے صوبہ سرحد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سپاہی کے طور پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دی۔
مصنف کے مطابق ان پہ دوسرا الزام سرکاری طریقہ کار اور قواعد سے ہٹ کر اپنی تاریخ پیدائش میں دو سال کی کمی کا بھی تھا۔ ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں مختلف اوقات میں سرکاری دستاویزات میں ان کی تاریخ پیدائش کہ مختلف حوالوں کا سراغ بھی لگا لیا۔
1952 میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد غلام صفدر شاہ نے لنکنز ان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا تھا۔
وہ پہلے مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے ۔اور پھر سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد اس دور کے چیف جسٹس انوار الحق کی جانب سے ان سے جواب طلب کیا گیا۔ انہوں نے جواب میں اپنے خلاف الزامات کو تکنیکی طور پر ناقابل سماعت قرار دیا۔
جسٹس غلام صفدر شاہ کا موقف تھا کہ آئین کی رو سے ایک جج صرف بطور جج سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جواب دہ ہے اس لیے ان کے خلاف تحقیقات غیر ضروری اور غلط بنیادوں پر کی گئی ہیں۔
ان کے جواب کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے انوار الحق کی سربراہی میں ان کے خلاف سماعت کا آغاز کیا۔
اکتوبر 1980 کو غلام صفدر شاہ نے الزامات کا سامنا کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کہ جج کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے کے باوجود ان کے خلاف الزامات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔
یہاں تک کہ وہ خفیہ طور پر افغانستان کے راستے لندن فرار ہو گئے اور اپنی بقیہ زندگی وہیں بسر کی۔
آٹھ برس تک چیف جسٹس رہنے کا موقع گنوانے والے جج کون تھے؟
سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے والے منصور علی شاہ کے حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ برس 26 ویں ترمیم کے بعد چیف جسٹس نہ بنائے جانے کی وجہ سے مایوسی کا شکار تھے۔
البتہ وہ اور اطہرمن اللہ 27 ویں ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے فیصلے سے اختلاف کی وجہ سے عدالتی منظر نامہ سے رخصت ہوئے۔
وفاقی آئینی عدالت کی ضرورت و اہمیت کے اولین تجویز کنندہ بھی اسی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کو قرار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس 26 ویں ترمیم کی منظوری کے موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالت کے حوالے سے جسٹس دراب پٹیل کا نام لیا تھا کہ وہ پاکستان میں اس تجویز کے خالق ہیں۔
پاکستان کے نظام انصاف میں اس تصور کے حامی جسٹس دراب پٹیل نے 1981 میں ضیاء الحق کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
معروف قانون دان حامد خان پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے بارے میں آپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ درا ب پٹیل اگر چاہتے تو حلف اٹھا کر چیف جسٹس بن سکتے تھے۔
اس صورت میں وہ اٹھ برس تک اس عہدے پر فائز رہ سکتے تھے مگر انہوں نے اصول پسندی اور آئین سے وفاداری کا مظاہرہ کیا۔
کوئٹہ کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہونے والے دراب پٹیل پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نیک نام ججوں میں سر فہرست ہیں۔ مفاد عامہ اور عوامی حقوق کے مقدمات میں ان کے دیے گئے فیصلے آج بھی حوالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
ان کے ساتھ ہی حلف نہ اٹھانے والی ایک اور شخصیت کی شہرت بھی جرأت مند اور دیانت دار جج کی ہے۔
یہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم تھے ۔انہوں نے ’پاکستان میں عدلیہ کے عروج و زوال ‘ کے نام سے کتاب کے مصنف سہیل وڑائج کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہیں شریف الدین پیرزادہ نے پی سی او پر حلف کے بدلے سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
اختلاف اور اصول کی بنیاد پر استعفی دینا فخر الدین جی ابراہیم کی سوچ اور شخصیت کا حصہ تھا۔
انہوں نے شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت میں اٹارنی جنرل کے عہدے اور ملک معراج خالد کی نگران حکومت میں وزیر قانون کے عہدے سے بھی اختلافات کے باعث استعفی دے دیا تھا۔ ضیاء الحق کے پی سی او پر حلف نہ اُٹھا کر گھر جانے والے تیسرے جج اس وقت کے چیف جسٹس انوار الحق تھے۔
فخر الدین جی ابراہیم کے مطابق انوار الحق اپنے قریبی دوست مولوی مشتاق وہ بھی حلف دلوانا چاہتے تھے مگر ضیاء الحق کے انکار پر انھوں نے پی سی او کی مخالفت کی اور سپریم کورٹ سے فارغ ہو گئے۔
جسٹس انوار الحق کے علاوہ جسٹس سعید الزمان صدیقی سپریم کورٹ کے دوسرے چیف جسٹس تھے جنہوں نے عبوری آئینی حکم نامے کے مطابق حلف نہیں اُٹھایا۔
انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے گھر جانے کو ترجیح دی تھی۔ ان کے ساتھ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں نے بھی فوجی حکمران کے فرمان کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
ان ججوں میں جسٹس وجیہہ الدین احمد، جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس مامون قاضی، جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس کمال منصور عالم شامل تھے۔
ذاتی اختلافات ہوں یا آئینی تقاضوں کی ضرورت ،پاکستان کی عدلیہ کے مستعفی ہونے والے ججوں کے تاریخ میں مقام اور مرتبے کا فیصلہ آنے والے دور کے واقعات اور حالات کے ذریعے ہوتا آیا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ سے رخصت ہونے والے ججوں کے فیصلے کو بھی تاریخ اسی میزان میں تولے گی۔











