Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: ’عدالتی کارروائی سننا چاہتا ہوں لیکن مجھے آواز نہیں آ رہی‘

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں تیسری مرتبہ ملزم ظاہر جعفر کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔
ملزم ظاہر جعفر نے عدالت سے واپسی پر میڈیا کو بتایا کہ اس کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ نور مقدم قتل کیس میں میڈیا، وکلا اور شہریوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کو ملزم کی پیشی سے قبل ہی بڑی تعداد میں وکلا اور صحافی کمرہ عدالت کے باہر جمع تھے اور منتظر تھے کہ کب ملزم کو عدالت میں لایا جائے گا۔

 

دو روزہ ریمانڈ ختم ہونے پر تقریباً ایک بجے پولیس نے سخت سکیورٹی میں ملزم ظاہر جعفر کو عدالت پہنچایا۔
پولیس کے حصار میں جب ملزم کو عدالت پہنچایا گیا تو اس وقت ایف ایٹ کچہری میں بجلی بند تھی۔ تاریکی اور بارش کے پانی سے گیلی سیڑھیوں کے راستے سے ملزم کو فرسٹ فلور پر ڈیوٹی مجسٹریٹ صہیب بلال رانجھا کی عدالت نمبر 11 تک لایا گیا۔
کمرہ عدالت میں رش ہونے کی وجہ سے پولیس ملزم کو لے کر عدالت کے باہر برآمدے میں کھڑی رہی۔ اے ایس پی اسلام آباد پولیس آمنہ بیگ اس موقع پر ملزم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی قیادت کر رہی تھیں۔
ایک موقع پر گرمی اور حبس اتنا بڑھ گیا کہ اے ایس پی نے پولیس اہلکاروں کو فاصلے پر کھڑا ہونے اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔
ملزم اور وکلا کو اندر جانے میں دشواری ہوئی تو اے ایس پی آمنہ بیگ پولیس اہلکاروں کو جگہ بنانے کے احکامات دیتی رہیں۔
کمرہ عدالت میں روشنی نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی کا آغاز موبائل فون ٹارچ کی روشنی میں ہوا تو باہر برآمدے میں رکنے پر مجبور ملزم ظاہر جعفر نے انگریزی میں آواز لگائی کہ ’میں عدالتی کارروائی سننا چاہتا ہوں لیکن مجھے آواز نہیں آ رہی۔‘ جس کے بعد پولیس ملزم کو لے کر کمرہ عدالت میں چلی گئی اور متعدد وکلا کو باہر نکلنا پڑا۔

ملزم نے عدالت کے باہر میڈیا کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

چند منٹوں کی عدالتی کارروائی میں سرکاری وکیل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ’مقدمے کی تفتیش جاری ہے۔ ملزم سے تاحال موبائل فون برآمد نہیں کیے جا سکے۔ ملزم کے والدین اور ملازمین کو ایک ساتھ بٹھا کر تفتیش بھی کرنی ہے اس کے لیے مزید ریمانڈ دیا جائے۔‘
عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے دو دن کی توسیع کی منظوری دے دی۔
سماعت کے بعد سرکاری وکیل نے اردو نیوز کے استفسار پر بتایا کہ ’ملزم کے پاس دو موبائل ہیں۔ ایک برآمد کر لیا جبکہ دوسرا موبائل برآمد کرنا باقی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’نور مقدم قتل کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 109، 201، 511 اور 176 شامل کر لی ہیں۔ جن کے تحت اعانت جرم، جرم چھپانا اور شواہد پر پردہ ڈالنے، مقتولہ نور مقدم کی موت کی وجہ بذریعہ مجسٹریٹ معلوم کرنے اور مجرم کو بچانے کے لیے ثبوت مٹانا یا جھوٹی اطلاع دینے کی دفعات بھی شامل ہیں۔‘
ملزم ظاہر جعفر کو تیسری مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تو بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ صورت حال کو سمجھ چکے ہیں اور بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم پولیس کی جانب سے انھیں عدالت پہنچانے کی جلدی نے انھیں بولنے نہ دیا۔

اسلام آباد میں سابق سفارتکار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کو 20 جولائی کی شام قتل کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو

واپسی پر ملزم ظاہر جعفر جونہی احاطہ عدالت سے باہر لگے کیمروں کے سامنے سے گزرے تو کسی سوال کے بغیر ہی انگریزی زبان میں بولے کہ ’میری زندگی خطرے میں لگتی ہے۔‘
یہ سننا تھا کہ اسلام آباد پولیس جو عموماً ملزم کو آرام کے ساتھ لاتی اور لے جاتی ہے نے اپنی رفتار تیز کر دی جس کے لیے ملزم تیار نہ تھا اور اس وجہ سے پولیس اسے دھکیلتے ہوئے گاڑی تک لے کر گئی۔ اس دوران کئی بار ملزم کو دھکے بھی لگے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعتوں پر ملزم نے عدالت جاتے وقت پولیس حصار میں صحافیوں کی جانب سے سوالات پوچھنے کے باوجود جواب نہیں دیے تھے۔
سنیچر کو عدالت سے واپسی پر متعدد سوالات کے جواب میں انھوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ’میں امریکی شہری ہوں اور اپنے وکیل کے ذریعے بات کروں گا لیکن وکلا سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔‘

نور مقدم کے قتل کے خلاف ملک کے بڑے شہروں میں سول سوسائٹی نے احتجاج کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

مقدمے کے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی پولیس نے ایسے شواہد ڈھونڈنے ہیں جس کے لیے آج ریمانڈ مانگا گیا۔ ابھی ملزم کا فون حاصل کرنا باقی ہے۔ یہ وجوہات کی بنیاد پر ہونے والا قتل ہے۔ اس میں جتنے بھی شواہد ہوں گے خاص طور پر فرانزک شواہد وہ بہت زیادہ اہم ہیں۔ فون نہ ملنے کی صورت میں ڈیٹا تو مل سکتا ہے تاہم تفتیش کے لیے اس کے موبائل فون کا فرانزک کروانا ضروری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مقدمے میں مزید دفعات کی شمولیت درست اقدام ہے کیونکہ کوئی بھی شخص جس کے سامنے کوئی جرم ہو رہا ہو اور وہ پولیس کو آگاہ نہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ایک جرم کے ثبوت کو چھپایا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پولیس کی تفتیش کی سمت درست جا رہی ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ واقعے کو دیکھ رہے تھے اور انھوں نے رپورٹ نہیں کیا۔ اس لیے پولیس نے ان کو گواہ بنانے کے بجائے ملزم بنا دیا ہے۔ یہ بہت اہم ہے اب عدالت ان کے کردار کا فیصلہ کرے گی۔‘

شیئر: