Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیونس میں حکومت کی برطرفی پر عوام کا جشن، آتش بازی

تیونس کے صدر خود بھی جشن مناتے حامیوں سے ملنے اس مقام پہنچے جہاں 2011 کے انقلاب کے دوران بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جیسے ہی تیونس کے صدر قیس سعید کی جانب سے حکومت کی برطرفی کا اعلان ہوا تو ہزاروں افراد جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ دوسری جانب ناقدین نے صدر قیس سعید کے اس اقدام کو مسترد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہزاروں افراد نے خوشی کا اظہار کیا، گاڑی کے ہارن بجائے اور آتش بازی کی۔ انہوں نے صدر قیس سعید کے فیصلے اور اعتدال پسند اسلامی جماعت النہضہ کے زوال کا جشن منایا۔
النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور صدر قیس سعید کی اصل سیاسی مخالف ہے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ صدر کی جانب سے پارلیمان کی معطلی کے بعد پیر کو تیونس کی فوج نے سپیکر کو پارلیمان کے اندر جانے سے روکا۔
اتوار کو شہریوں کی ایک بڑی تعداد کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے نافذ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکلی اور جشن منایا۔ دارلحکومت میں کسی بھی سیاسی احتجاج کا مرکز رہنے والے شاہراہ حبیب بورقیبہ میں بھی شہری جمع ہوئے۔
ایک تیونسی خاتوں عامرہ عابد نے پرچم کو چومتے ہوئے کہا کہ ’صدر بہت بہادر ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بغاوت نہیں۔‘
تیونس کے صدر خود بھی جشن مناتے حامیوں سے ملنے اس مقام پہنچے جہاں 2011 کے انقلاب کے دوران بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
2011 میں انقلاب کے بعد سے صدر قیس سعید کی جانب سے اٹھایا گیا ڈرامائی اقدام ایسی کیفیت میں سامنے آیا ہے جب آئین پارلیمانی جمہوریت کے مقابلے میں سکیورٹی اور ڈپلومیسی سے متعلق صدارتی اختیارات کو خاصا محدود رکھتا ہے۔
تیونس کے صدر کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ حکومت کی برخاستگی اور پارلیمان کی معطلی کا اقدام جمہوریت سے دور ہونے کا حصہ ہے اور ماضی کی متعلق العنان حکومت کی جانب واپسی ہے۔
تیونس کے صدر نے عوامی بیانات میں ان خدشات کو مسترد کیا ہے۔
عمران سپریئر ضلعے میں نوجوان خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’آج، آج، آج النہضہ کا اختتام ہوا۔‘ آس پاس کئی خاندان کھڑے تھے اور موبائل فونز سے ویڈیوز بنا رہے تھے۔
ایک آدمی جو اپنی بیٹی کے ساتھ تھے، کہا کہ ’ آج ہماری عید (چھٹی) ہے۔‘

شیئر: