Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیروت دھماکے میں تین بچوں کو بچانے والی نرس کی ایک سال بعد ان سے دوبارہ ملاقات

علی، سدرہ اور نواہ کو ان کے گھر والے پامیلا زینون سے ملوانے ہسپتال لے کر آئے (فوٹو: عرب نیوز)
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں گذشتہ سال بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے کے وقت تین نومولود بچوں کو ایک ہسپتال سے بچانے والی نرس ایک سال بعد ان سے دوبارہ ملیں۔
پامیلا زینون نامی نرس، جنہیں اس واقعے کی وجہ سے قومی ہیرو قرار دیا گیا تھا، سینٹ جارج یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں کام کر رہی تھیں، جو کہ مذکورہ بندرگاہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
پامیلا زینون کو دھماکے کے وقت اندازہ نہیں تھا کہ شہر میں کیا ہوا ہے۔ وہ اس وقت ہسپتال کی چوتھی منزل پر نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں موجود تھیں۔ انہوں نے دھماکے کے بعد فوراً ایک جڑواں بھائی، بہن اور ایک تیسری بچی کو ان کے کاٹ سے اٹھایا اور انہیں ایک حفاظتی مقام تک لے گئیں۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے پامیلا زینون نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔ جن بچوں کو میں نے تین سال قبل بچایا ان سے ایک بار پھر ملنے کا احساس بے حد اچھا تھا۔
جڑواں بھائی بہن علی اور سدرہ اور ایک تیسری بچی نواہ کو ان کے گھر والے پامیلا زینون سے ملوانے ایک سال بعد بدھ کو ہسپتال لے کر آئے تھے۔ اس ہسپتال کو دھماکے سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے بند کرنا پڑا تھا تاہم اب اسے جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔
نواہ کا خاندان دھماکے کے بعد لبنان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
نرس اور ان کے بچائے ہوئے تین بچوں کی فوٹو اس جگہ لی گئی جہاں سال قبل ایک نیوز فوٹوگرافر نے دھماکے کے وقت پامیلا زینون کے فون کو اپنی گردن سے سنبھالتے ہوئے ان تینوں کو پکڑے تصویر بنائی تھی۔
بچوں سے ملنے پر اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے پامیلا زینون نے بتایا کہ ’گذشتہ سال قبل از وقت پیدا ہونے والے یہ بچے بہت چھوٹے تھے۔‘
’وہ اتنے پیارے لگ رہے تھے اور ان کے ساتھ کھیل کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ مجھے لگا میں انہیں ویسا ہی محسوس کروا رہی ہوں جیسا میں نے انہیں 4 اگست 2020 کو کروایا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کو صحت کے ساتھ محفوظ اور خطرے سے دور بڑا ہوتا دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوئی۔‘

دھماکے کے وقت نرس اور تینوں بچے ہسپتال کی چوتھی منزل پر تھے (وٹو: بلال جیوچ فیس بک)

دھماکے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ’افسوس ناک تباہی‘ تھی اور کہا کہ انہیں تمام متاثرین اور ان خاندانوں کے ساتھ ہمدردی ہے جو اس حادثے میں اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔
صرف ان کے ہسپتال ہی میں دھماکے سے 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب میں متاثرین کے اہلِ خانہ کو واقعے کے بارے میں جواب تلاش کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ان کا حصہ ہوں۔۔ ۔میں امید کرتی ہوں کہ انصاف ہو اور ہمیں پتا چلے کہ جو کچھ ہوا اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔‘
دھماکے کے بعد اپنے وارڈ کا منظر بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’چھت گر گئی تھی اور کمرہ ملبے سے بھر گیا تھا، جبکہ وہاں موجود فرنیچر اور طبی سامان ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔‘
اس دوران انہوں نے تینوں نومولود بچوں کو اٹھایا، وہ کچھ دیر ایمرجنسی روم میں بجنے والے فون کو اٹھانے کے لیے رکیں جس کی تصویر لبنانی فوٹو جرنلسٹ بلال جیوچ نے لی۔

بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے سے تقریباً تین لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ان کی کھینچی گئی فوٹو دنیا بھر میں وائرل ہوئی، جسے نیوز ویب سائٹس، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر دیکھا گیا تھا۔
ایک نومولود بچے سے ملنے کے لیے آنے والے اس کے والد نے انکیوبیٹر پر گرے ہوئے شیلوز اٹھا کر  پامیلا زینون کی مدد کی تاکہ وہ بچوں کو بچا سکیں۔
تباہی، ہنگامے اور ٹوٹی ہوئی لفٹ کے باوجود نرس نومولد بچوں کو چوتھی منزل سے باحفاظت نیچے پہنچانے میں کامیاب ہوئیں۔  
اس کے بعد وہ انہیں پکڑ کر پانچ کلومیٹر تک ملبے سے بھری سڑک پر پیدل چلیں۔ پھر ایک گاڑی کے ڈرائیور نے انہیں دوسرے ہسپتال تک بہنچایا۔
بدھ کو دھماکے کے ایک سال پورے ہونے پر لبنان کے لوگوں نے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا۔
بیروت کی بندگاہ پر ہونے والا دھماکہ تاریخ کے بڑے غیر ایٹمی دھماکوں میں سے ایک تھا جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور چھ ہزار 500 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً تین لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔

شیئر: