Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈونیشین گھریلو ملازمہ کا کیس مکمل ادائیگی کے ساتھ حل

انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی یاتی کسنیاوتی نے 12 برس قبل سعودی عرب  میں ایک خاندان کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔ ایک جسمانی معذوری کی شکار یاتی کو کبھی کبھی تنخواہ کی ادائیگی میں التوا کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کچھ عرصہ قبل جب یاتی نے اپنے وطن جانے کا ارادہ کیا تو انڈونیشین میڈیا کے بعض اداروں نے ان کے کیس کو غلط طور پر رپورٹ کیا اور یہ کہا کہ انہیں مملکت میں قید کر لیا گیا ہے اور آجر نے ان کی تنخواہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سعودی عرب کے شہر حائل میں کام کرنے والی یاتی نے عرب نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ انہیں اپنے تمام بقایاجات ایک بونس اور واپسی کے ٹکٹ کے ساتھ مل چکے ہیں۔
عرب نیوز نے اپنے ذرائع سے تصدیق کی ہے کہ بلاشبہ یاتی کی تنخواہ کی ادائیگی التوا کا شکار رہی ہے مگر ایسا ان کے آجر کی مالی مشکلات کی وجہ سے ہوا۔ اب یہ معاملہ شفافیت کے ساتھ حکومتی اتھارٹیز کی موجودگی اچھے طریقے سے حل ہو چکا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ انڈونیشین خاتون کو ان کی مرضی کے خلاف سعودی عرب میں حراست میں رکھا گیا بلکہ سعودیہ میں قیام ان کی رضامندی سے تھا۔ اس کیس کی پیروی کرنے والے ایک سعودی اہلکار نے بتایا کہ ’یاتی ایک دن میں اپنے وطن انڈونیشیا چلی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کیس کے دوران انڈونیشیا کے میڈیا نے ہمارے ساتھ رابطہ کیے بغیر اور کیس کے فیصلے سے پہلے ہی جلد بازی میں غلط خبریں نشر کر دیں۔‘
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے یاتی نے سعودی حکومت کے رویے اور اپنے آجر کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنے تمام بقایا جات ایک بونس کے ساتھ وصول کر لیے ہیں اور مجھے جکارتہ  کے لیے جہاز کا ٹکٹ بھی موصول ہو گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں سعودی عرب میں کام کرتی رہی ہوں جو کہ اسلام اور انصاف کی سرزمین ہے جہاں کسی سے برا سلوک نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ ’میں اپنے سپانسر سے تنخواہ ادا کرنے کا مطالبہ کرتی تو وہ مجھے بعد میں ادا کرنے کا یقین دلاتے تھے، میرے ایک لاکھ17ہزار آٹھ سو ریال (31ہزار چار سو 20 ڈالرز) قابل ادا تھے۔‘
یاتی نے چار اگست کو سعودی عرب کی وزارت ہیومین ریسورسز اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ کی لیبر کمیٹی میں کیس درج کرایا تھا جس کے بعد ان کے تمام حقوق ادا کرنے کا فیصلہ دیا گیا۔
یاتی نے کہا ہے کہ وہ اب خوش ہیں اور التوا کے شکار چلے آ رہے اپنے معاملات حل ہو جانے اور اپنے تمام حقوق وصول ہونے کے بعد وہ وطن واپس جا رہی ہیں جہاں وہ اپنے بیٹے سے مل سکیں گی۔
خیال رہے کہ مملکت کے ویژن 2030 کے مطابق غیر ملکی ورکز کو کام کا مناسب ماحول فراہم کرنے کے لیے کی گئی اصلاحات کے تحت سعودی عرب کی متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اتھارٹیز اور تنظیمیں ایسے معاملات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔  

شیئر: