Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی صدر کی جانب سے مغرب مخالف وزیرِ خارجہ کی نامزدگی

امیرعبداللہ ہیان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب، حزب اللہ اور دیگر ایرانی پراکسیزسے کافی قربت رکھتے ہیں۔ (فوٹو:روئٹرز)
ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے بدھ کو ایک مغرب مخالف رجحان کے حامل امیر عبداللہ ہیان کو ایسے حالات میں وزیر خارجہ نامزد کیا ہے کہ جب ایران اور چھ عالمی طاقتیں 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں فکر مند ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سخت گیر ابراہیم رئیسی جن پر ان کے جج ہونے کے دورانیے میں انسانی حقوق کی پامالیوں الزامات کی بنیاد پر مغرب کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں، نے پانچ اگست کو صدر کے عہدے پر کام شروع کیا ہے۔
اوسط درجے کے شیعہ عالم ابراہیم رئیسی نے جون میں ہونے والے انتخابات میں حسن روحانی کی جگہ صدر کا عہدہ حاصل کیا تھا اور اس وقت اعتدال پسند اور اصلاح پسند سیاسی حریفوں کو الیکشن میں کھڑا ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
ابراہیم رئیسی نے اعتماد کے متوقع ووٹ کے لیے اپنی کابینہ میں شامل افراد کے نام پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے حسن امیرعبداللہ ہیان کو وزیر خارجہ، سابق نائب وزیر تیل اور سرکاری گیس کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر جواد اوجی کو وزیر تیل منتخب کیا ہے۔
ایرانی جوہری پروگرام کے ایک مذاکرات کار نے کہا کہ ’امیر عبداللہ ہیان ایک سخت گیر سفارت کار ہیں۔ اگر وزارت خارجہ ایران کے ایٹمی ڈوزیئر کے تحت رہتی ہے تو ظاہر ہے کہ تہران مذاکرات میں بہت سخت موقف اختیار کرے گا۔‘
ایران کے نیم سرکاری ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ایران کی سپریم نیشنل کونسل جو براہ راست سخت گیر نظریات کے حامل سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہے، وہ وزرات خارجہ کی طرف سے ویانا میں جوہری مسئلے پر مذاکرات کرے گی۔ قبل ازیں وزارت خارجہ سابق صدرروحانی کے دور میں نسبتاً معتدل افراد کے ہاتھ میں تھی۔
امیرعبداللہ ہیان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاسداران انقلاب، لبنان کی حزب اللہ اور مشرق وسطیٰ میں پھیلی دیگر ایرانی پراکسیزسے کافی قربت رکھتے ہیں۔
ایران کے ایک سابق سفارت کار نے کہا ہے کہ ’رئیسی کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں خطے کے مسائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والا معائدہ اس کے تین برس بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں۔
 

شیئر: