Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں قیدیوں سے بدسلوکی والی ویڈیوز اصلی ہیں، جیل حکام

فوٹیج میں قیدی باتھ روم کا آئینہ توڑ کر اپنے آپ کو زخمی کر رہا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
ایرانی جیل خانہ جات کے سربراہ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ایران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی پہ دکھانے والی تمام  ویڈیوزاصلی ہیں۔
اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق تہران میں جیل خانہ جات کے سربراہ نے ان تمام  ناقابل قبول رویوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
محمد مہدی حاج محمدی کا یہ تبصرہ بدسلوکی دکھائے جانیوالی ویڈیوز کے منظر عام پر آنے اور ان کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہونے کے اگلے دن سامنے آیا ہے۔

جیل اصلاحات پر زور دئیے جانے کےبعد کلوزسرکٹ کیمرے لگائے گئے۔ (فوٹو ٹوئٹر)

تہران میں قائم اوین جیل طویل عرصے سے سیاسی قیدیوں اور مغرب سے تعلقات رکھنے والوں کو قید کرنے لئے مشہور ہے جنہیں ایران بین الاقوامی مذاکرات کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ٹوئٹر پیغام میں محمد مہدی نے کہا ہے کہ مجرموں کا سامنا کرتے ہوئے اس طرح کے تلخ واقعات دہرانے سے گریز کریں۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ میں اپنے رب ، سپریم لیڈر، اپنی عظیم قوم اور جیل کے ان نیک نامی افسران سے معذرت خواہ ہوں جن کی کوششوں کو کسی دوسروں کے غلط کاموں کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ایران میں سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی محمد مہدی حاج محمدی کے اس  تبصرے کی  تصدیق کی ہے۔
محمد مہدی نے اوین جیل میں ہونے والی زیادتیوں سے نمٹنے کے بارے میں کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔
واضح رہے کہ 1971 میں تعمیر کی جانیوالی اس جیل میں کئی زیادتیاں دیکھنے میں آئی ہیں جو ابھی تک جاری ہیں۔

یہ جیل طویل عرصے سے سیاسی قیدیوں کو رکھنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ (فوٹو بی بی سی)

2009 میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے انتخاب کے بعد ایران کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد گرفتار ہونے والے بہت سے مظاہرین کو اس جیل میں بند کیا گیا تھا۔
بعدازاں قانون سازوں نے جیل میں بدسلوکی کی اطلاعات کے بعد خصوصی طور پر اس جیل میں اصلاحات پر زور دیا جس کے نتیجے میں کلوزسرکٹ کیمرے لگائے گئے۔
واضح رہے کہ سامنے آنی والی فوٹیج میں ایک قیدی باتھ روم کا آئینہ توڑ کر اس سے اپنے آپ کو زخمی کرنے کی کوشش کرتا دکھایا گیا ہے۔
نگرانی کیمرے میں دکھائے گئے مناظر میں جیل کے محافظ اور قیدی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔
اس جیل  کے چار سابق قیدیوں اور بیرون ملک انسانی حقوق کے ایک ایرانی کارکن کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیوز شمالی تہران کی جیل سے ملتی جلتی ہیں۔
ان ویڈیوز کو ایک آن لائن اکاؤنٹ سے جاری کیا گیا ہے تاہم اکاؤنٹ نے اے پی کے ان سوالات کا جواب نہیں دیا کہ ان وڈیوز کو کیسے ہیک کیا گیا۔
 
 

شیئر: