Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر یقینی صورت حال، پاکستان میں افغان کرنسی کی خرید و فروخت بند

غیر ملکی کرنسی ڈیلر کے مطابق 'غیر مجاز ڈیلرز اور بلیک مارکیٹ میں ہنڈی حوالہ کا کاروبار کرنے والے لوگ ہی افغانی کی خرید و فروخت کر رہے ہیں' (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں طالبان کی جانب سے صدر اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ملک میں غیر یقینی صورت حال ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھے جار ہے ہیں۔  
طالبان کی جانب سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد پاکستان میں منی ایکسچینجرز نے افغانستان کی کرنسی (افغانی) کی خرید و فروخت بند کر دی ہے۔  
پشاور کے علاقے صدر میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والے پراچہ منی ایکسچینجرز کے جمیل شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان میں غیر یقینی صورت حال کے باعث منی ایکسچینجرز نے افغانی خریدنا بند کر دی ہے۔‘  
جمیل شاہ کے مطابق ’اس وقت ہمارے پاس کرنسی فروخت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن کرنسی کا خریدار ہی موجود نہیں ہے، منی ایکسچینجرز افغان کرنسی خریدنے سے اس لیے بھی کترا رہے ہیں کیونکہ وہ آگے کس کو بیچیں گے اس وقت تو خریدار نہ ہونے کے برابر ہے۔‘  
جمیل شاہ نے افغانی کی قدر کے بارے میں خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی میں بھی افغان کرنسی کو اچانک منسوخ کردیا گیا دیا تھا اور لوگوں کا شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا۔‘
’اس وقت بھی غیر یقینی صورت حال ہے اور یہی خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی کرنسی کو ہی ختم نہ کر دیا جائے جس کی وجہ سے کرنسی ڈیلرز اس وقت افغانی کی خرید و فروخت میں ہچکاہٹ کا شکار ہیں۔‘  

افغانی کرنسی کی بلیک مارکیٹ میں فروخت  

پشاور کی باڑہ مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے صدیق خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت کوئی بھی مجاز ڈیلر افغان کرنسی کی خرید و فروخت نہیں کر رہا جس کی وجہ سے انہیں بلیک مارکیٹ میں ہی کرنسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔‘  
صدیق خان کے مطابق ’پشاور شہر کے چوک یادگار میں اس وقت افغانی کی خرید و فروخت کی جا رہی ہے لیکن وہاں بھی اپنی مرضی کے مطابق ریٹ لگایا جاتا ہے جو کہ روز مرہ کی بنیاد پر تبدیل ہو رہا ہے۔‘

پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ 'مارکیٹ میں ڈیڑھ روپے سے لے کر دو روپے تک افغانی کرنسی کا ریٹ چل رہا ہے' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

غیر ملکی کرنسی ڈیلر جمیل شاہ نے بھی افغانی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر مجاز ڈیلرز اور بلیک مارکیٹ میں جو ہنڈی حوالہ یا افغانستان میں کاروبار کرنے والے لوگ ہیں وہی افغانی کی خرید و فروخت کر رہے ہیں۔‘  
جمیل شاہ نے بتایا کہ ’اس وقت افغانی کی قدر وقتاً فوقتاً تبدیل ہو رہی ہے، کابل پر طالبان کا قبضہ ہونے سے قبل ایک افغانی کی قیمت پاکستانی روپے کے مقابلے دو روپے تک پہنچ گئی تھی جبکہ اب اس کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس کی قیمت ایک روپیہ 70 پیسے ہوچکی ہے۔‘  
پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے سے قبل امن و امان کے حالات کے حوالے سے شدید تحفظات تھے اور قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ کافی زیادہ حالات خراب ہو جائیں گے۔‘

کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے مطابق 'اس وقت کوئی بھی مجاز ڈیلر افغانی کی خرید و فروخت نہیں کر رہا' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس وجہ سے افغانی کی خرید و فروخت مکمل طور پر بند ہوگئی تھی لیکن کابل پر طالبان کا قبضے اور پرامن انتقال اقتدار کی توقعات سے صورت حال میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ میں اس وقت ڈیڑھ روپے سے لے کر دو روپے تک افغانی کرنسی کا ریٹ چل رہا ہے لیکن جس طرح امریکہ اور دیگر ممالک نے افغانستان کے اثاثے طالبان حکومت کو نہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے اس سے مستقبل میں صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔‘  
ملک بوستان کے مطابق ’اگر افغانستان کے غیر ملکی اکاؤنٹس منجمد ہی رہتے ہیں تو کرنسی کی مزید گراوٹ آئے گی۔‘
’تاہم اگر صورت حال پرامن رہی اور تمام فریقوں کو ملا کر حکومت قائم ہوئی اور انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی قوتوں کے تحفظات دور ہوجائیں تو کرنسی میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن اس وقت غیریقینی کی فضا ہے اس لیے حالات روز مرہ کی بنیاد پر تبدیل ہو رہے ہیں۔‘

شیئر: