Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکہ، پاکستان سے کیا مطالبہ کرتا رہا؟

رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام بائیڈن انتظامیہ سے کابل سے انخلا میں مدد کی تعریف چاہتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ داعش اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں تعاون کرے جبکہ پاکستانی حکام کی دلچسپی اس بات میں تھی کہ امریکہ افغانستان سے بین الاقوامی انخلا میں ان کی کوششوں کی کھل کر تعریف کرے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی جریدے ’پولیٹیکو‘ نے یہ انکشاف سفارتی دستاویزات کے تناظر میں کیا ہے۔
واشنگٹن سے شائع ہونے والے میگزین ’پولیٹیکو‘ نے حساس ای میلز اور سفارتی خط و کتابت کو دیکھنے کے بعد رپورٹ کیا کہ 15 اگست کو کابل کے طالبان کے قبضے میں جانے کے بعد امریکہ عسکریت پسند تنظمیوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں پاکستان کے تعاون کا خواہاں تھا۔
پولیٹیکو کے مطابق لیک ہونے والی حساس دستاویزات کا اس کی ٹیم نے جائزہ لیا ہے جس میں پاکستانی حکام واشنگٹن سے یہ چاہ رہے تھے کہ وہ ان کوششوں کی تعریف کرے جو پاکستان کابل سے بین الاقوامی اںخلا میں تعاون کے لیے کر رہا ہے۔
میگزین کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن انتظامیہ یہ سب کچھ نہایت خاموشی سے کر رہی تھی اور پاکستانی حکام سے اپنے رابطوں اور بات چیت کے حوالے سے کھل کر سامنے نہیں آئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام پاکستان کو افغان طالبان پر اثر و رسوخ کی وجہ سے اہمیت دیتے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کی حمایت کھو کر اسے ’صرف چین کے زیر اثر‘ نہیں دیکھنا چاہتے۔
رپورٹ کے مطابق اِن سٹریٹجک مفادات کو سامنے رکھنے کے باوجود لیک شدہ دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اگلے اہداف کے حوالے سے ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کر پا رہیں۔
رپورٹ میں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے امریکی حکام سے رابطوں اور گفتگو کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

پولیٹیکو کے مطابق امریکی حکام چاہتے تھے کہ پاکستان داعش اور القاعدہ کے خلاف کارروائی میں تعاون کرے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایسی ہی ایک گفتگو میں یہ منسوب کیا گیا ہے کہ پاکستانی سفیر نے امریکی حکام سے طالبان کے افغانستان میں گھر گھر جا کر مخالفین کو نشانہ بنانے کی رپورٹس پر سوال اٹھایا۔
رپورٹ کے مطابق ’اسد مجید خان نے امریکی حکام کو بتایا کہ پاکستان کی گراؤنڈ آبزرویشن کے مطابق طالبان گھر گھر جا کر مخالفین کو نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ وہ افغان شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔‘
پولیٹیکو کے مطابق اس بات چیت میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عہدیدار اِرون ماسنگا نے بتایا کہ انہوں نے افغانستان سے آنے والی رپورٹس دیکھی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ طالبان انتقامی کارروائیاں نہیں کریں گے۔

شیئر: