Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان حکومت سے روابط رکھنے کے سوا چارہ نہیں: مشیر قومی سلامتی

پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ ’اگر افغانستان کے ساتھ ابھی روابط نہ بنائے گئے تو دنیا کو ایک پھر دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘  
بدھ کے روز اسلام آباد میں غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے واضح کیا کہ ’پاکستان کے پاس افغانستان کے ساتھ روابط بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے پاکستان کی طرف سے افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کی چھ وجوہات بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو افغانستان سے دنیا بھر کے شہریوں کے انخلا کے علاوہ، انسانی بحران کے خدشے سے بچنے، دہشت گردی سے بچنے، بارڈر مینجمنٹ، مہاجرین کے بحران سے نمٹنے اور علاقائی معیشت کے لیے تعلقات بنانا ضروری ہیں۔
معید یوسف نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی کہ وہ افغانستان سے تعلقات قائم کریں تاکہ خطے کو نئے بحران سے بچایا جائے اور ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دنیا کے اپنے مفاد میں ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔‘
مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ’اگر دنیا نے ماضی کی طرح افغانستان کو چھوڑا تو داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کے پنپنے کا خطرہ رہے گا جو کہ پاکستان اور باقی دنیا کی دشمن ہیں۔‘
’افغانستان میں سکیورٹی کے خلا کی وجہ سے دہشت گردی کا خطرہ ہوگا جو پوری دنیا کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سے ناصرف انسانی بحران اور مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوگا بلکہ خطہ بھی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا نے افغان حکومت کے حوالے سے معاشی پلان نہ بنایا اور اس کی مدد نہ کی تو پھر اس حکومت کا ناکام ہونا یقینی ہے جو کسی کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ ’انسانی بحران سے نمٹنے کے بجائے اسے پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔‘
معید یوسف کے مطابق پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ تنہا افغانستان کی مدد کر سکے اور نہ ہی اس پوزیشن میں ہے کہ ماضی کی طرح افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو برداشت کر سکے۔ اس کے لیے دنیا کو مل کر پالیسی بنانا ہوگی۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’یہ دنیا کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف سخت ایکشن کے مطالبے کے حوالے سے کہا کہ ’اگر دونوں ممالک گذشتہ 20 سال کی گفتگو ہی جاری رکھیں گے تو اس کے نتائج کیسے مختلف آئیں گے۔‘ ’ضرورت ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور انہوں نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب سے بات چیت میں بھی کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو دوسرے ممالک کے حوالے سے دیکھنے کے بجائے وسیع البنیاد دو طرفہ تعلقات قائم کیے جائیں جس طرح امریکہ نے انڈیا کے ساتھ قائم کر رکھے ہیں۔‘
اس موقع پر صحافیوں کو ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں ثابت کیا گیا کہ گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان کے حوالے سے جو پاکستان نے کہا وہ درست ثابت ہوا جیسا کہ افغان فورسز کا نہ لڑ سکنا، مسئلے کا فوجی حل کے بجائے مذاکرات سے حل شامل ہیں۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہوا تو خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کے حوالے سے کہا کہ ’تازہ حملے میں سات پاکستانی فوجی اہلکار جان سے گئے جبکہ چار زخمی ہوئے ہیں۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ پہلے پاکستان افغانستان سے ٹی ٹی پی کی حمایت کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتا تھا مگر اب جبکہ گذشتہ افغان حکومت ختم ہو چکی ہے تو اب بھی فورسز پر حملے کیوں جاری ہیں تو معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’ان کا ذاتی خیال ہے کہ پہلے سے موجود تربیت یافتہ دہشت گرد بھی جان گئے ہیں کہ ان کے پاس مواقع محدود ہو گئے ہیں انہیں مزید کُمک نہیں مل سکتی اس لیے وہ آخری حملے کر رہے ہیں۔‘
 ’پاکستان اپنے بارڈر کی حفاظت کو بہتر کر رہا ہے اور طالبان نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔‘

شیئر: