جتنے آپ کے پاس فون نمبر ہوں گے اتنا ہی آپ کے لیے مصیبت ہو گی۔ (فوٹو: پکسابے)
آج میری کولیگ کا موڈ پھر آف تھا اور وہ خاموشی سے دفتر کا کام ختم کرنے کی کوشش میں تھی ۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی کوئی خاص جواب نہ دیا اور یونہی بے نیازی سے فائلیں ادھر ادھر رکھنے لگی ۔
جب لنچ ٹائم ہوا تو کولیگ میرے قریب آکر رونے لگی کہ 'یار دیکھو ناں میرے ساتھ کتنا برا ہوا ، میری پرانی کولیگ جس کو میں بہنوں کی طرح سمجھتی تھی اس کی عزت کرتی تھی اس نے ہی میرا رشتہ تڑوا دیا اور تو اور تمام سوشل میڈیا پر مجھے بلاک بھی کردیا۔'
میری کولیگ اپنے رشتے سے بہت خوش تھی اور چند مہینوں میں اس کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا لیکن اس کی غلطی یہ تھی کہ ہر بات اپنی کولیگ کو بتانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر دن بھر کی روداد شیئر کرتی۔ جس طرح سے میری کولیگ اپنی محبت کی داستان شیئر کرتی اس کی کولیگ کا جیلس ہونا لازم تھا اور فیس بک پر علینہ کے منگیتر کا اکائونٹ ڈھونڈنا بھی آسان کام تھا۔
زندگی میں خوشیوں کے لیے سماجی دائرے کا محدود ہونا مفید رہتا ہے (فوٹو: پکسابے)
لہذا میری کولیگ کے منگیتر سے اس کے کولیگ کی گپ شپ جو پہلے زیادہ تر اسی کے بارے میں ہی ہوتی تھی بعد میں ایک الگ نوعیت اختیار کر گئی اور اب نتیجہ سب کے سامنے تھا۔ یہاں پر غور کرنے کی یہ ضرورت ہے کہ کولیگ کا منگیتر بھی اسے دھوکہ دیتا رہا لیکن کیا یہاں اسی کا قصور نہیں تھا جس نے شازیہ پر اندھا دھند اعتبار کر لیا۔
ہمارے ہاں سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی رشتے کو قائم کرتے وقت حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتے۔ پنجابی محاورہ ہے ’’ لانڑااں سوکھیاں تے نبھاڑیاں اوکھیاں‘‘ یعنی کہ رشتے بنانا آسان ہے لیکن ان کو بنھانا بہت مشکل ہے۔
حتی کہ خون کے رشتے بھی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ تو بچوں کو جوڑ کر رکھتے ہیں جب کہ بہن بھائی جب اپنا اپنا الگ گھر بسا لیتے ہیں تو ان کو کسی دوسرے کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
ظاہر ہے کہ زندگی ایک الگ مدار میں گھومنے لگتی ہے۔ ہم کیوں بے اعتباری کی مار کھاتے ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں کہ ہم اپنی پریشانیوں کی باوجود دوسروں کے مسائل حل کرنے کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں۔ آج کل کا دور ایسا ہے کہ ہر کوئی اپنے مسائل کی وجہ سے پریشان ہے گویا سب نے اپنے اپنے سروں پر مصیبتوں کی ایک گٹھڑی اٹھا رکھی ہے کسی کو فون کریں یا میسج ہر کوئی اپنی داستان سنانے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنے سر کا بوجھ دوسرے کے سر پر رکھ دے۔
آپ کے پاس وقت ہو یا نہ ہو ہر کوئی فرسٹریشن کا شکار ہے اور ہر وقت آپ کو ہی دستیاب یا کیا کہنا چاہیے کہ فالتو سمجھتا ہے۔ اب اگر آپ مروت کے مارے ہیں اور انسانیت کا درد رکھتے ہیں تو 60، 70 منٹ تو کہیں بھی نہیں گئے۔ لیکن گفتگو کے دوران اگر کوئی بھی بات آپ کو ناگوار لگ گئی اور آپ بول پڑے تو بس توپوں کا رخ آپ کی طرف ہو گیا۔
ہم کسی بھی رشتے کو قائم کرتے وقت حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتے۔ (فوٹو: پکسابے)
آپ کی جاب ہو یا شادی شدہ زندگی کوئی آپ کے حالات کو نہیں سمجھے گا لیکن مفت مشورہ سب ہی دیں گے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی بے شمار ہیں۔ جتنے لوگوں کا آپ سے رابطہ ہو گا ضروری نہیں کہ وہ سب آپ کے خیر خواہ ہوں حتی کہ آپ کے رشتے دار بھی آپ کو اکثر اوقات آپ پر کڑی نظر رکھنے کے لیے فالو کر رہے ہوتے ہیں۔
جتنے آپ کے پاس فون نمبر ہوں گے اتنا ہی آپ کے لیے مصیبت ہوگی کیونکہ بہت سے لوگوں کو زیادہ اور غیر ضروری میسج کرنے کی بیماری ہوتی ہے آپ اگر ذرا سی مصروفیت یا اکتاہٹ کے باعث میسج کا جواب نہیں دیں گے تو جھگڑا شروع ہو جائے گا۔
کسی کو بھی آپ کی کوئی پوسٹ پسند نہیں آئے گی تو کمنٹس کی بھرمار شروع ہو جائے گی جو آپ کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ آپ ایک ایک بندے کو جواب دینے لگ گئے تو پھر گئے کام سے ۔ ضروری نہیں کہ سب آپ کی تعریف اور مثبت تنقید کریں زیادہ تر افراد وائرس نما ہی ہوتے ہیں ۔ گویا آپ نے سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں ہی پالا ہوتا ہے۔
منافقت کا دور ایسا ہے کہ آپ کے حقیقی دوست احباب اور رشتے بھی آپ کو استعمال کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ایک شخص نے ہمیں ایک سکینڈ نکال کر میسج کیا ہے وہ صرف اپنے مطلب اور موقع محل کو ہی کیش کرتے ہیں۔ زندگی بہت آسان ہے اس لیے اپنے معاشرتی دائرے کو جتنا محدود رکھیں گے اتنا ہی خوش باش اور کامیاب رہیں گے۔ فیصلہ آپ پر ہے۔