Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ پر حملہ، سات افراد ہلاک، 20 زخمی

پولیس چیف کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور لوگوں کو چُھرے مارے (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں جمعے کو روہنگیا پناہ گزین کیمپ پر مسلح افراد کے حملے میں سات افراد ہلاک اور کم سے کم 20 زخمی ہوئے ہیں۔
اے ایف پی نے مقامی پولیس اور شعبہ صحت کے اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ حملہ پچھلے دنوں ایک روہنگیا کمیونٹی کے ایک اہم لیڈر کے قتل کے بعد صورت حال میں بڑھتی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
علاقائی پولیس چیف کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے اس وقت فائرنگ کی اور لوگوں کو چُھرے مارے جب وہ کیمپ میں ہی واقع ایک اسلامی سکول میں کلاس اٹینڈ کر رہے تھے۔
چار افراد موقع پر ہی دم توڑ دیے جبکہ تین پناہ گزین بالوخالی کیمپ کے ہسپتال میں ہلاک ہوئے جو اس بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں نو لاکھ افراد کو رکھا گیا ہے۔ تاہم کیمپ میں رہائش کی صورت حال کافی خراب ہے۔
 پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے افراد زخمی ہوئے تاہم شعبہ صحت کے اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حملے میں 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ہمارے ہسپتال میں تقریباً 20 شدید زخمیوں کو لایا گیا، جن میں سے بہت سے بازوؤں، ٹانگوں اور آنکھوں سے محروم تھے۔ صورت حال بہت خراب ہے۔‘
پولیس افسر کامران حسین کا کہنا ہے کہ ’شرپسند دارالعلوم ندوت العلما الاسلامیہ مدرسہ میں علی الصبح داخل ہوئے اور اندر موجود لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔‘
سکیورٹی فورسز نے فوری پر طور کیمپ کو سیل کر دیا جس میں 27 ہزار سے زائد افراد کے گھر ہیں۔
کیمپ کے رہائشیوں نے سوشل میڈیا پر مرنے والوں کی لاشوں کی تصویریں شیئر کی ہیں جو مدرسے کے فرش پر پڑی ہیں تاہم آزاد ذرائع سے ان تصویروں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
مقامی پولیس چیف شہاب قیصر نے صحافیوں نے بتایا کہ ’ہم نے واقعے کے فوراً بعد ایک حملہ کو گرفتار کیا جس کے قبضے سے اسلحہ، سات گولیاں اور ایک چھری برآمد ہوئی ہے‘
29 ستمبر کو بالو خالی کیمپ میں مقامی رہنما محب اللہ کے قتل کے بعد بہت سے روہنگیا ایکٹویسٹ روپوش ہو گئے ہیں یا پولیس اور یو این ایجنسیز کی مدد سے تحفظ حاصل کیا۔

سکیورٹی فورسز نے فوری پر طور کیمپ کو سیل کر دیا جس میں 27 ہزار سے زائد افراد کے گھر ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

48 سالہ سکول ٹیچر کمیونٹی کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے اور وائٹ ہاؤس میں 2019 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی کی تھی۔
کچھ کارکنوں کی جانب سے ہلاکتوں کا الزام اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (ارسا) پر لگایا ہے تاہم گروپ کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔
ارسا جنگجوؤں کا گروپ ہے جس پر میانمار میں سکیورٹی فورسز پر 2017 حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ جس کے بعد فوجی پابندیاں لگیں اور سات لاکھ 40 ہزار روہنگیا افراد نے بنگلہ دیش ہجرت کی۔
یہ منشیات کی سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے اور بنگلہ دیش میں موجود کیمپس کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ایک نمایاں روہنگیا نے حملے کا الزام ارسا پر لگایا ہے اور کہا ہے کہ مدرسے نے اس کو پیسے دینے سے انکار کیا تھا۔

پولیس چیف کے مطابق ایک حملہ آور کو گرفتار کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے سال سے ارسا نے تمام مدارس کو حکم دیا ہے کہ وہ 10 ہزار ٹکہ جب کہ استاد پانچ سو ٹکہ ماہانہ دیں، اور جس مدرسے پر حملہ ہوا اس کی جانب سے رقم دینے سے انکار کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے نام اس لیے ظاہر نہیں کیا کیونکہ ان کے رشتہ دار کیمپ میں موجود ہیں اور انہیں خدشہ تھا کہ انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔
انسانی حقوق کے ایک اور کاکن نے بھی تصدیق کی ہے کہ مدرسے نے کیمپ میں کبھی ارسا کے کنٹرول کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
اراکن روہنگیا سوسائٹی فار پیس اینڈ ہمومن رائٹس کے رہنما کیاؤ مِن نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں اے ایف پی کو بتایا تھا۔ ’پولیس خوفزدہ اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہےحالانکہ محب اللہ کے قتل کے بعد بہت کشیدگی پائی جاتی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میچلے بیچلٹ نے محب اللہ کی ہلاکت کو عدم تحفظ کی مثال قرار دیا تھا۔

شیئر: