Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی: جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل، دو اہلکاروں کو پھانسی کی سزا

اس قتل کو شروع میں ٹارگٹ کلنگ کہا جا رہا تھا تاہم بعد میں سی سی ٹی وی وڈیو اور شواہد سے معلوم ہوا کہ اس قتل میں اے سی ایل سی اہلکار ملوث تھے۔ (فوٹو:فیس بک)
کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے اینٹی کار لفٹنگ سیل میں تعینات دو پولیس کانسٹیبلز کو 2018 میں ڈیفنس کے علاقے میں نوجوان انتظار احمد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی۔
کانسٹیبل بلال رشید اور محمد دانیال اس وقت (اب ڈی آئی جی) مقدس حیدر کے سٹاف کے طور پر تعینات تھے، اور 13 جنوری 2018 کو انہوں نے باضابطہ پلاننگ کر کے کراچی کے رہائشی انتظار احمد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے سنٹرل جیل کے اندر قائم جوڈیشل کمپلیکس میں کیس کی سماعت کے دوران محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔
مقدمے میں نامزد ملزمان کو جیل سے پیش کیا گیا، جنہیں قتل اور دہشت گردی کی دفعات پر سزائے موت سنائی گئی۔
علاؤہ ازیں قتل میں سرکاری اسلحہ استعمال کرنے کے جرم میں سندھ آرمز ایکٹ کے تحت دونوں مجرمان کو 10 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی، ساتھ ہی فی کس اڑھائی لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا، جسے ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 3 ماہ قید کاٹنا ہو گی۔
عدالت نے اس وقت کے ایس ایچ او طارق محمود سمیت انسپکٹر طارق رحیم اور انسپکٹر اظہر حسین، ہیڈ کانسٹیبل شاہد عثمان اور کانسٹیبلز غلام عباس اور فواد خان کو جرم میں معاونت پر عمر قید کی سزا سنائی اور تین لاکھ فی کس جرمانہ عائد کیا، جسے ادا نہ کرنے کی صورت میں ایک ایک سال مزید قید کاٹنا ہو گی۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نے واضح کیا کہ جرمانے کی مد میں وصول ہونے والی رقم کو مقتول کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
استغاثہ کے مطابق 19 سالہ انتظار حسین ملائشیا میں زیرِ تعلیم تھا اور تعطیلات گزارنے وطن آیا تھا۔
13 جنوری 2018 کی رات انتظار مدیحہ کیانی نامی خاتون کے ساتھ سفر کر رہا تھا جب سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے اس کی گاڑی کا تعاقب کر کے اس پر فائرنگ کی جس میں انتظار موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
مقتول انتظار کے والد اشتیاق کا کہنا تھا کہ ’وہ عدالت کی جانب سے قاتلوں کو سزا سنائے جانے پر مطمئن ہیں البتہ انہیں اصل سکون تب ملے گا جب دونوں قاتل سولی پر لٹکائے جائیں گے۔‘
انتظار کے قتل کو شروع میں ٹارگٹ کلنگ کہا جا رہا تھا تاہم بعد میں سی سی ٹی وی وڈیو اور شواہد سے معلوم ہوا کہ اس قتل میں اے سی ایل سی اہلکار ملوث تھے۔

شیئر: