Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا تحریک لبیک کے ساتھ حکومت کا نیا معاہدہ خفیہ رکھا جائے گا؟

مولانا بشیر فاروق قادری نے کہا کہ ’یہ معاہدہ سر بمہر لفافے میں موجود ہے جو کہ مفتی منیب الرحمن کی امانت ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ حکومت کا ایک اور معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کی قیادت اور حکومت کے درمیان 13 نکاتی معاہدہ طے پایا ہے تاہم اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔  
مذاکراتی کمیٹی میں شامل مولانا بشیر فاروق قادری نے اردو نیوز کو بتایا کہ 13 نکاتی معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 24 گھنٹوں کے اندر تحریک لبیک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرے گی. تاہم معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انہوں نے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاہدہ سر بمہر لفافے میں موجود ہے جو کہ مفتی منیب الرحمن کی امانت ہے اور ایک وفد اس معاہدے کو لے کر وزیرآباد رونہ ہو گا جہاں اس کا اعلان کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب کالعدم تحریک لبیک کے مذاکراتی کمیٹی کے رکن کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ ’معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر نہ لانے کے حوالے سے ہمیں پابند بنایا گیا ہے تاہم اس کے ثمرات جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔‘
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کی جانب سے معاہدے کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں البتہ اس بار معاہدے پر عمل درآمد کے لیے سٹئیرنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے جو کہ معاہدے کے نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کی سربراہی میں قائم کی گئی اس سٹیئرنگ کمیٹی میں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت، وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ہوم سیکرٹری پنجاب شامل ہیں، جبکہ کالعدم تحریک لبیک کی جانب سے غلام غوث بغدادی اور حفیظ اللہ علوی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ماضی کے معاہدے


کالعدم تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ماضی میں تین مرتبہ معاہدے ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کالعدم تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ماضی میں تین مرتبہ معاہدے ہو چکے ہیں۔ پہلی بار تحریک لبیک پاکستان نے 2017 میں انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے خلاف دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے نتیجے میں حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن فریق تھے جبکہ معاہدے میں اس وقت کے میجر جنرل اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے دستخط بطور ضامن  موجود تھے۔
اس معاہدے کے تحت اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو استعفیٰ دینا پڑا جبکہ تحریک لبیک نے ان کے خلاف فتوی نہ جاری کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرنے اور مقدمات ختم کرنے کے نکات بھی شامل تھے۔
نومبر 2018 میں تحریک لبیک نے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کیس میں آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کیا اور مختلف شہروں میں دھرنے دیے گئے۔
اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے معاہدہ طے پایا جس میں فیصلے کے خلاف اپیل میں حکومت کی طرف اعتراض نہ اٹھائے جانے کی یقین دہانی جبکہ آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا معاہدہ کیا اور تمام گرفتار کارکنان کی رہائی پر بھی اتفاق پایا۔
نومبر 2020 میں تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ایک بار پھر معاہدہ طے پایا۔ اس بار تحریک لبیک نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے شائع ہونے کے خلاف احتجاج کیا۔

تحریک لبیک پاکستان نے 2017 میں انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان طے پا جانے والے معاہدے میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں لے جانے اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے پر اتفاق ہوا۔
اس معاہدے کے مطابق حکومت فرانس میں اپنا سفیر تعینات نہیں کرے گی جبکہ فرانسیسی مصنوعات کا حکومتی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں بھی تمام گرفتار کارکنان کو رہا کرنے اور مقدمات ختم کرنے فیصلہ کیا گیا تھا۔

شیئر: