Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قحط کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ: اقوام متحدہ

ورلڈ فوڈ پروگرام افغانستان میں دو کروڑ 30 لاکھ افراد کی مدد کر رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بھوک کی شدید لہر کے باعث 43 ممالک میں قحط کے دہانے پر موجود افراد کی تعداد ساڑھے چار کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بھوکے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیگٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کا کہنا تھا کہ لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
انہوں نے افغانستان کے دورے کے بعد، جہاں ورلڈ فوڈ پروگرام دو کروڑ 30 لاکھ افراد کی مدد کر رہا ہے، کہا ’اور تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ افراد فاقہ کشی کے دہانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، کھاد زیادہ مہنگی ہے، اور یہ سب کچھ نئے بحرانوں کو جنم دیتا ہے جیسا کہ اب افغانستان میں سامنے آ رہا ہے۔‘

شام میں ایک کروڑ 24 لاکھ لوگ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ (فوٹو: روئٹرز)

ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر قحط سے بچنے کی لاگت اب سات ارب ڈالر ہے، جو کہ سال کے شروع میں چھ ارب 60 کروڑ ڈالر تھی۔
اس نے خبردار کیا کہ فنڈنگ کے روایتی سلسلے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے خاندانوں کو 'تباہ کن انتخاب کرنے' پر مجبور کیا جا رہا ہے، جیسے بچوں کی جلد شادی کرنا، انہیں سکول سے نکالنا یا انہیں ٹڈیاں، جنگلی پتے یا کیکٹس کھلانا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ’دریں اثنا افغانستان سے میڈیا رپورٹس میں ان خاندانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر زندہ رہنے کی مایوس کن کوشش میں اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے افغانستان میں بہت زیادہ خشک سالی معاشی بدحالی کے ساتھ مل کر خاندانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہی ہے، جبکہ شام میں تقریباً ایک کروڑ 24 لاکھ لوگ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔
ایتھوپیا، ہیٹی، صومالیہ، انگولا، کینیا اور برونڈی میں بھی شدید بھوک میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

شیئر: