بدھ کو آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو طلب کیا کر لیا جس پر وزیراعظم عدالت میں پیش ہو گئے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا ہو۔ ماضی میں بھی کئی وزرائے اعظم کو سپریم کورٹ طلب کیا گیا تھا جبکہ دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف سپریم کورٹ کے احکامات پر نااہل بھی ہو چکے ہیں۔
بدھ کو جب وزیراعظم پیش ہوئے تو چیف جسٹس گلزار احمد نے انہیں ہدایت کی کہ حکومت آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے، جبکہ وزیراعظم نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
مزید پڑھیں
-
کوئی گیم شروع نہیں ہو رہی، گیم صرف عمران خان کی ہے: شیخ رشیدNode ID: 617096
-
’جسٹس صاحب،آپ سب ایک منٹ خاموش ہو جائیں اور میری بات سنیں‘Node ID: 617176
حالیہ تاریخ میں سپریم کورٹ نے کئی بار ورزائے اعظم سے مخلتف مقدمات میں جواب طلبی کی اور کئی مواقع پر انہیں عدالت بھی طلب کیا۔
نوازشریف کی پیشیاں
وزیراعظم نواز شریف کو نوے کی دہائی میں اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں توہین عدالت کے کیس میں پیش ہونا پڑا تھا۔
سن 1997 میں جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران مسلم لیگ کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بولا تو اس وقت بھی سجاد علی شاہ ہی چیف جسٹس تھے۔
تاہم بعد میں سپریم کورٹ کے ہی ساتھی ججوں نے سجاد علی شاہ کو معزول کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر رپورٹر قیوم صدیقی کے مطابق نواز شریف وہ پہلے آئینی وزیراعظم تھے جنہیں 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاٗ کے بعد گرفتاری کے چند ماہ بعد سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ تاہم پیشی سے قبل انہیں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لا انتظامیہ نے جبراً عہدے سے معزول کر دیا تھا اس لیے تکنیکی طور پر وہ حاضر سروس وزیراعظم نہیں تھے گو کہ آئینی طور پر وہی وزیراعظم تھے۔

اس کے بعد وہ بطور اپوزیشن رہنما میمو گیٹ میں سپریم کورٹ میں مدعی کے طور پر پیش ہوئے، جبکہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کردہ جے آئی ٹی میں بطور وزیراعظم بھی پیش ہوئے تھے۔ اپنی معزولی کے بعد بھی وہ دسمبر 2018 کو محکمہ اوقاف کی زمین کے مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔
یوسف رضا گیلانی کی پیشی اور نااہلی
اپریل 2012 کو سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے کے مطابق سوئس حکام کو خط نہ لکھنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے پر سزا سنائی تھی۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے انہیں توہینِ عدالت میں ’جب تک عدالت کا وقت ختم نہیں ہوتا تب تک کی سزا‘ سنائی جس کا دورانیہ ایک منٹ سے کم تھا کیونکہ سزا سنانے کے ساتھ ہی عدالت برخاست ہوگئی۔
تاہم اس سزا کے باعث وہ سزایافتہ افراد میں شامل ہو گئے اور قانون کے مطابق سزا یافتہ فرد عوامی عہدے کا اہل نہیں۔ لہذا سپریم کورٹ کی وضاحت پر 19 جون 2012ء کو وہ پارلیمان کی رکنیت اور وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دئیے گئے۔ وہ اس کیس میں دو دفعہ بطور وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش بھی ہوئے تھے۔
