Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے علاج کے لیے پیکسلووڈ گولی کی غریب ممالک کو فراہمی کا معاہدہ

فائزر کے مطابق ’پیکسلووڈ‘ گولی کورونا کے علاج میں 98 فیصد مؤثر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے کورونا وائرس کا علاج کرنے والی اینٹی وائرل گولی ’پیکسلووڈ‘ کو دنیا کے غریب ممالک میں مزید سستے داموں دستیاب کرنے کے لیے عالمی میڈیسن پینٹنٹ پول کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فائزر کمپنی پیکسلووڈ گولی کی تیاری کے لیے عام دواساز کمپنیوں کو لائسنس جاری کرے گی تاکہ کم اور متوسط آمدنی والے 95 ممالک کو اینٹی وائرل دوا سپلائی کی جا سکے۔ 
عالمی میڈیسن پیٹنٹ پول (ایم پی پی) کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت فائزر کو عام دوا ساز کمپنیوں سے رائیلٹی نہیں ملے گی، جس سے سستا علاج ممکن ہو سکے گا۔
خیال رہے کہ جنیوا میں قائم ایم پی پی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ بین الاقوامی تنظیم ہے جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے ادویات کی ترقی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
ایم پی پی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اینٹی وائرل ادویات کے جاری ٹرائلز اور ریگولیٹری اداروں کی منظوری سے مشروط ہے۔
امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے کہا ہے کہ اینٹی وائرل گولی کے جاری ٹرائلز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق کورونا مریضوں کے ہسپتال میں داخلے یا اموات میں 89 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
فائزر نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ گولی کورونا کے مرض میں شدت پیدا ہونے سے روکتی ہے۔ مریض میں کورونا وائرس کا شدت اختیار کرنا ہسپتال میں داخلے یا موت کا سبب بن سکتا ہے۔

دوا ساز اداروں کے مطابق ویکسین کے مقابلے میں گولی کی فراہمی آسان ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فائزر کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹیو البرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اینٹی وائرل گولیاں کورونا وائرس کی شدت کو کم کرنے اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ انسانی جان بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔‘
گزشتہ ماہ ایم پی پی نے اسی نوعیت کا معاہدہ ایک اور امریکی دواساز کمپنی مرک اینڈ کو کے ساتھ کیا تھا جس نے اینٹی وائرل گولی مولنو پراور تیار کی ہے۔
ریگولیٹری منظوری سے مشروط یہ معاہدہ 105 کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں مولنو پراور تک وسیع رسائی پیدا کرنے میں مدد کرے گا۔
ویکسین کے مقابلے میں گولیاں بنانا آسان ہیں، ڈیلیوری کے لیے کولڈ چین کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور مریض خود بھی ان کا انتظام کر سکتا ہے۔

شیئر: