Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باکس کیمرے‘ کو طالبان ختم نہ کر سکے مگر ڈیجیٹل دور میں ’ریٹائرڈ‘

افغانستان میں 1950 کی دہائی میں باکس کیمرے متعارف ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
افغانستان میں 1950 کی دہائی میں متعارف ہونے والے ’باکس‘ کیمرے بدلتے ہوئے ملکی حالات کے باوجود منظر عام سے غائب نہیں ہوئے یہاں تک کہ طالبان کے پہلے دور میں تصویریں کھینچنے پر پابندی بھی ان پر اثر انداز نہ ہو سکی۔
کابل کے ایک شہری حاجی میر زمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ باکس یا انسٹنٹ کیمرے نے ہر قسم کی جنگوں، غیر ملکی افواج کے قبضوں اور طالبان کی حکومت کا مقابلہ کیا لیکن اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے سامنے بقا کی جنگ لڑنا مشکل ہو گیا ہے۔
ویسے تو یہ فارسی زبان میں ’کمرای فاوری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اسے میجک باکس یعنی جادوئی ڈبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ تصویر کھینچنے کے چند منٹوں بعد ہی صارف کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔
ستر سال سے زائد عمر کے حاجی میر زمان نے’کمرای فاوری‘ کا استعمال نوعمری میں شروع کیا تھا۔ وہ لوگوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کھینچا کرتے تھے جو اکثر اوقات پاسپورٹ، آئی ڈی کارڈز یا دیگر سرکاری دستاویزات پر لگانے کے مقصد سے بنائی جاتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیمرے اب ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ میں نے بس یہ آخری کیمرا سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔‘
حاجی میر زمان نے بتایا کہ اس میجک باکس کا لکڑی کا ڈبہ کیمرے اور ڈارک روم دونوں کا کام دیتا ہے، تصویر کھینچنے سے پہلے اس ڈبے میں میں فوٹوگرافک کاغذ اور ایک محلول ڈالنا پڑتا ہے۔
’آج کل تمام فوٹوگرافر ڈیجیٹل کیمرا استعمال کرتے ہیں۔ بہت ہی کم لوگ اس کیمرے کا استعمال جانتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کا ڈبہ کسی بھی مقامی بڑھئی سے تیار کروایا جا سکتا تھا لیکن کیمرے کے لینز بیرون ملک سے منگوانے پڑتے تھے۔

حاجی میر زمان نے باکس کیمرے کا استعمال نوعمری میں شروع کر دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

باکس کیمروں کا استعمال 1950 کی دہائی میں عام ہوا تھا جب ہر مرد شہری کے لیے لازمی تھا کہ وہ ملکی فوج میں شامل ہو کر چند برس کے لیے اپنی خدمات انجام دے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں افراد فوج میں بھرتی ہوئے جنہیں آئی ڈی کارڈز کے لیے تصویرں کھچوانا تھیں۔
سال 1996 سے 2001 تک حکومت کرنے والے طالبان نے بھی تصویریں لینے پر پابندی عائد کی تھی لیکن حاجی میر زمان کو اجازت تھی کہ وہ اپنے باکس کیمرا سے سرکاری تصویریں کھینچ سکتے ہیں۔
طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد بھی باکس کیمرے کے استعمال میں اضافہ ہوا جب لاکھوں کی تعداد میں بچوں نے سکولوں کا رخ کیا اور ایک مرتبہ پھر آئی ڈی کارڈ کے لیے تصویریں بنوانا پڑیں۔
طالبان نے اقتدار میں واپسی کے بعد تصویریں لینے پر پابندی نہیں عائد کی اور نوجوان جنگجو اپنے موبائل کیمروں سے ایک دوسرے کی یا اپنی سیلفی کھینچتے نظر بھی آتے ہیں۔

تاریخی باکس کیمروں کی جگہ اب ڈیجیٹل کیمروں نے لے لی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

حاجی میر زمان نے اپنے چاروں بیٹوں کو فوٹوگرافی کا فن سکھایا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی باکس کیمرا استعمال نہیں کرتا۔
حاجی میر زمان کے خاندان کا آخری ’کمرای فاوری‘ اب ان کے سٹوڈیو کے باہر نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے جو افغانستان میں فوٹوگرافی کی تاریخ کی ایک یادگار ہے۔

شیئر: