نئے کورونا ویریئنٹ اومیکرون سے خوفزدہ دنیا دوبارہ بندشوں کی راہ پر
نئے کورونا ویریئنٹ اومیکرون سے خوفزدہ دنیا دوبارہ بندشوں کی راہ پر
پیر 29 نومبر 2021 17:31
ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اومیکرون کورونا وائرس کے دوسرے ویرینئٹ سے زیادہ خطرناک ہے یا نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دنیا بھر کی ممالک نے کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ کے سامنے آنے کے بعد سفری پابندیوں اور دیگر ضابطوں کا دوبارہ نفاذ شروع کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جاپان نے اعلان کیا کہ وہ تمام غیر ملکی مسافروں کے جاپان میں داخلے پر پابندی لگا دے گا جبکہ جنوبی افریقہ میں محققین کی جانب سے چند دن قبل شناخت کی گئی کورونا وائرس کی نئی قسم کے کیسز ہانگ کانگ، آسٹریلیا اور پرتگال میں بھی سامنے آئے ہیں۔
کورونا وائرس کے نئے کیسوں کے اس سلسلے نے سفر اور کھلی سرحدوں کی دنیا میں ’جن کو بوتل میں رکھنے‘ کو تقریباً ناممکن ظاہر کیا ہے۔
اس کے باوجود بہت سے ممالک نے اس نئے ویرینئٹ سے مقابلہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے تاکید کی تھی کہ سرحدوں کی بندش کا اثر اکثر محدود ہوتا ہے لیکن یہ اقدام زندگی اور معاش کو تباہ کر سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی پابندیاں کورونا وائرس کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کا تجزیہ کرنے کے لیے قیمتی وقت فراہم کر سکتی ہیں کیونکہ ابھی تک اس کے بارے میں بہت کم معلومات سامنے آ سکی ہیں۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ زیادہ متعدی ہے، اس سے سنگین بیماری کا زیادہ امکان ہے یا ویکسین کے ذریعے اس سے تحفظ ممکن ہے۔
جنوبی افریقہ کی تعریف لیکن سفری پابندیاں بھی
یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا کہ ’اس بار دنیا نے دکھایا کہ وہ سیکھ رہی ہے۔‘
انہوں نے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی افریقہ کا تجزیاتی کام، شفافیت اور اس کے نتائج کو سامنے لانا ایک تیز عالمی ردعمل کے لیے ناگزیر تھا۔ بلاشبہ اس نے بہت سی زندگیوں کو بچایا۔‘
ڈبلیو ایچ او نے جنوبی افریقہ اور بوٹسوانا کی بھی تعریف کی ہے کہ وہ دنیا کو تیزی سے کورونا وائرس کے نئے ویرینئٹ کی موجودگی سے آگاہ کر رہے ہیں اور بہت سے لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ انہیں(جنوبی افریقہ اور بوٹسوانا کو) نئے ویریئنٹ کی جلد اطلاع دینے کے وجہ سے سزا نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کورونا کا نیا ویریئنٹ پہلی بار کب اور کہاں پیدا ہوا۔
لیکن ان سب دلائل نے پورپی یونین کمیشن کی صدر کو 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں سات جنوبی افریقی ممالک کی پروازوں پر فوری پابندی عائد کرنے سے باز نہیں رکھا جبکہ دیگر بہت سے ممالک نے بھی ایسے ہی اقدامات اٹھائے ہیں۔
بیلجیئم، ڈنمارک اور نیدرلینڈز میں پہلے ہی کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل پرتگالی حکام نے بیلینینس پروفیشنل ساکر کلب کے ٹیم ممبران میں اومیکرون کے 13 کیسز کی نشاندہی کی تھی۔
قرنطینہ کرنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے، ڈچ ملٹری پولیس کو ایک ایسے شوہر اور بیوی کو گرفتار کرنا پڑا جنہوں نے ایک ہوٹل چھوڑ دیا جہاں انہیں کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد رکھا گیا تھا اور وہ سپین جانے والے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے۔
ترجمان پیٹرا فیبر نے کہا کہ قرنطینہ لازم نہیں ہے لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ لوگ ذمہ داری سے کام کریں گے۔
جاپان اور اسرائیل میں بھی سخت ضابطوں کی راہ پر
جاپان جہاں ابھی تک کسی بھی اومیکرون کیسز کا پتہ نہیں چل سکا ہے، نے سرحدی کنٹرول کو دوبارہ نافذ کر دیا جو اس نے مختصر مدت کے کاروباری افراد، غیر ملکی طلبہ اور کارکنوں کے لیے اس ماہ کے شروع میں نرم کر دیا تھا۔
وزیراعظم فومیو کشیدا نے منگل سے شروع ہونے والے اس اقدام کے بارے میں کہا کہ ’ہم جاپان میں بدترین صورت حال کو روکنے کے لیے ہنگامی احتیاط کے طور پر یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ جاپان نے اپنی سرحد تمام ممالک کے غیر ملکی سیاحوں کے لیے بند کر رکھی ہے۔
اُدھر اسرائیل نے بھی غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور مراکش نے کہا کہ وہ پیر سے تمام آنے والی پروازوں کو دو ہفتوں کے لیے معطل کر دے گا۔
عالمی تشویش کے باوجود سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اومیکرون کورونا وائرس کے دوسرے ویرینئٹ سے زیادہ خطرناک ہے جس نے 5 ملین سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے۔
کچھ ممالک میں دوسرا رجحان
ایک جانب نئی پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں جبکہ دنیا کے کچھ حصوں میں حکام مخالف سمت میں جا رہے تھے۔
ملائیشیا میں حکام نے ایک پل کو جزوی طور پر دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا جو سنگاپور سے ملاتا ہے اور نیوزی لینڈ نے اعلان کیا کہ وہ کئی ماہ کے شٹ ڈاؤن کے بعد داخلی طور پر دوبارہ کھولنے کا منصوبہ جاری رکھے گا حالانکہ وہ نو جنوبی افریقی ممالک سے سفر پر بھی پابندی لگا رہا ہے۔
وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ انہیں مزید پابندیوں کی توقع نہیں ہے اور آکلینڈ میں بار، ریستوران اور جِم جمعرات کے آخر سے دوبارہ کھل سکتے ہیں اور وہاں اگست میں شروع ہونے والے کورونا وائرس لاک ڈاؤن کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس دوران امریکہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسس کولنز نے کہا کہ ابھی تک کوئی ڈیٹا نہیں بتاتا ہے کہ کورونا کی نئی قسم اس وائرس کے پہلے مختلف ویرینئٹس سے زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتی ہے۔
فرانسس کولنز نے متعدد ماہرین کی آراء کے تناظر میں کہا کہ اس خبر سے ہر ایک کو دنیا کے پاس پہلے سے موجود وسائل ویکسین، بوسٹر شاٹس اور ماسک پہننے سمیت ٹولز کو استعمال کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے۔
امریکہ میں نئی سفری پابندیاں
امریکہ بھی پیر سے جنوبی افریقہ اور سات دیگر جنوبی افریقی ممالک کے سفر پر پابندی لگا رہا ہے۔
امریکہ کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فوکی نے کہا کہ ’یہ ہمیں اپنی تیاریوں کو بڑھانے کے لیے ایک وقت دے گا۔ وائرس کی منتقلی، شدت اور دیگر خصوصیات کے بارے میں مزید حتمی معلومات حاصل کرنے میں تقریباً دو ہفتے مزید لگیں گے۔‘