Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین پارلیمان کا متنازع زرعی قوانین ختم کرنے کے حق میں ووٹ، ’پہلی بڑی کامیابی‘

انڈیا کے کسانوں نے متنازع قوانین کے خلاف ایک سال تک احتجاج کیا (فوٹو: اے ایف پی)
کسانوں کی جانب سے مسلسل ایک سال کے احتجاج کے بعد انڈین پارلیمان نے متنازع زرعی اصلاحات کے قوانین ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے زرعی قوانین کو واپس لینے کے فیصلے کے بعد انڈین پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے قوانین کو ختم کرنے کے لیے بل پیش کیا۔  
19 نومبر کو انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔
ہزاروں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی کے مضافات میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے لیے کسانوں کا یہ احتجاج سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔
کسانوں کی یونینز نے حکومت کے خلاف تب تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے جب تک وہ مزید مراعات حاصل نہیں کر لیتے۔
کسانوں کی یونینز کے اتحاد سمیوکتہ کسان مورچہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج یہ کسان تحریک کی پہلی بڑی کامیابی ہے جبکہ دیگر اہم مطالبات اب بھی زیر التوا ہیں۔‘
کسان فصلوں کی کم سے کم قیمت کے تعین اور سینکڑوں ایسے کسانوں کے خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو احتجاج کے دوران جان سے گئے۔

19 نومبر کو انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

وشوجوت مان جنہوں نے ممبئی میں ہفتے کے آخر میں کسانوں کی ریلی میں شرکت کی، کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ اس حکومت کی کسانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ قوانین منسوخ کر دے گی، اس لیے نہیں کہ حکومتی حکام انہیں غلط سمجھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ احتجاج ان کے انتخابی نتائج کو متاثر کرے گا۔‘
وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے قوانین واپس لینے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کے حامل انتخابات سے پہلے آیا۔ پنجاب اور اتر پردیش دونوں ریاستوں میں کسانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔
جمعہ کو انڈیا میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کا ایک سال مکمل ہونے پر ہزاروں کسان دہلی ہریانہ سرحد کے قریب سنگھو کے مقام پر جمع ہوئے۔

شیئر: