Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوئٹر پر بغیر اجازت لوگوں کی تصاویر پوسٹ کرنے پر پابندی

ٹوئٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے ہر کیس میں سیاق و سباق کو بھی مدنظر رکھنے کی کوشش کرے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے صارفین پر اجازت کے بغیر لوگوں کی تصاویر یا ویڈیوز پوسٹ کرنے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ برنس انسائیڈر کے مطابق ٹوئٹر نے منگل کو اس نئے ضابطہ کار کے بارے میں ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا۔
کمپنی نے کہا ہے کہ صارفین کو پہلے فرد کی ذاتی رپورٹ یا اس کے ’مجاز نمائندے‘ کی جانب سے ایک رپورٹ درج کرانا ہوگی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ تصویر یا ویڈیو کو بغیر اجازت کے شیئر کیا گیا ہے۔ اگر ٹویٹ میں موجود شخص اپنی رضامندی نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی اطلاع دے گا تو ٹوئٹر اس مواد کو ہٹا دے گا۔
کون سا مواد اس ضابطے سے مستثنیٰ ہے؟
تاہم اس نئے اصول میں کچھ مستثنیات بھی ہیں۔ عوامی شخصیات کی تصاویر اور ویڈیوز جو ان کی اجازت کے بغیر پوسٹ کی گئی ہیں وہ اسی صورت میں سائٹ پر رہ سکتی ہیں جب انہیں ’مفاد عامہ کے تحت شیئر کیا جائے یا ان کے ذریعے عوامی گفتگو میں اضافہ مقصود ہو، بشرطیکہ اس کا مقصد کسی کو ’ہراساں کرنا، ڈرانا یا خوف کے ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں خاموش کرنا‘ نہ ہو۔
ٹوئٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے ہر کیس میں سیاق و سباق کو بھی مدنظر رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر مثال کے طور پر تصویر عوامی طور پر دستیاب ہے یا روایتی میڈیا آؤٹ لیٹس کی طرف سے اسے کور کیا جا رہا ہے تو ٹوئٹر اس پر غور کرے گا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ٹوئٹر نئی پالیسی کو کیسے نافذ کرے گا یا اس کو نافذ کرنے کے لیے کن وسائل کا استعمال کیا جائے گا۔
یہ اقدام ٹوئٹر کی ان موجودہ ’ڈوکسنگ‘ پالیسیوں میں ایک اضافہ ہے، جو صارفین کو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر اس کے گھر کے پتے، شناختی دستاویزات، رابطے کی معلومات اور دیگر ذاتی تفصیلات شیئر کرنے سے روکتی ہیں۔

یہ اقدام ٹوئٹر کی موجودہ ’ڈوکسنگ‘ پالیسیوں میں ایک اضافہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ ٹوئٹر کے قواعد کا سلسلہ تھا جس کا ٹوئٹر نے جزوی طور پر حوالہ دیا جب اس نے 2020 کے آخر میں اس وقت کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے بیٹے اور یوکرین کے درمیان تعلقات کو ظاہر کرنے کے لیے ایک مشکوک امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کی کہانی کے یو آر ایل پر پابندی عائد کردی تھی۔
نیو یارک پوسٹ کے اس مضمون میں عوامی معلومات شامل تھیں جس نے ٹوئٹر کے قوانین کی خلاف ورزی کی جب نیوز آؤٹ لیٹ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر وہ سٹوری پوسٹ کی۔
تاہم ٹوئٹر کے ایک ترجمان نے بعد میں کہا کہ یہ کہانی اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب ان معلومات کو عوامی طور پر دستیاب سمجھا جاتا ہے۔
ٹوئٹر کے سابق سی ای او جیک ڈورسی نے بھی بعد میں کہا کہ یو آر ایل پر پابندی لگانا ’غلط‘ تھا۔

شیئر: