Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے جج کا گھر تحویل میں لینے کا فیصلہ واپس

خط میں والی سوات کے تاریخی گھر کو حکومت کی طرف سے تحویل کی ہدایت کی گئی تھی (فوٹو:محکمہ آثار قدیمہ)
خیبر پختونخوا حکومت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے گھر کو تاریخی ورثہ قرار دے کر تحویل میں لینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
جمعے کو سوشل میڈیا پر خیبرپختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کا ڈپٹی کمشنر سوات کو لکھا گیا خط سامنے آیا تھا جس میں والی سوات کے تاریخی گھر کو سیکشن فور لگا کر حکومت کی طرف سے تحویل میں لینے  کی ہدایت کی گئی تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد نے بتایا کہ ’ایسا خط جاری ضرور ہوا تھا تاہم اسے واپس لے لیا گیا ہے۔‘
اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ’مذکورہ پراپرٹی اتنی مہنگی ہے کہ حکومت کے پاس اسے سرکاری ریٹ پر خریدنے کا بھی بجٹ موجود نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر عبدالصمد نے کہا کہ والی سوات کی رہائش گاہ کو تحویل میں لینے کا توشہ خانہ کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہیں آج پتا چلا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج بھی اس گھر کے مالکان میں شامل ہوتے ہیں۔
مذکورہ گھر گذشتہ 20 سال سے خالی تھا اور ہمیں اس کے مالکان میں سے شہریار گل صاحب نے رابطہ کر کے کہا تھا کہ یہ گھر دستیاب ہے۔‘

محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کے بقول ’پراپرٹی اتنی مہنگی ہے کہ سرکاری ریٹ پر خریدنے کا بھی بجٹ موجود نہیں‘ (فوٹو: محکمہ آثار قدیمہ)

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس بجٹ نہیں تھا اس لیے ہم نے اسے لینے کا ارادہ ترک کر دیا تھا اور گذشتہ ماہ ہی اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔‘
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر کے بقول ’خط دو تین ہفتے پہلے واپس لیا گیا تھا، ہم پورے صوبے میں کل 28 تاریخی عمارات کو تحویل میں لے رہے ہیں جن میں مشہور اداکاروں دلیپ کمار اور راج کمار کے گھر بھی شامل ہیں۔‘
انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ والی سوات کی رہائش گاہ تحویل میں لینے  کا فیصلہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر لیا گیا یا واپس لیا گیا۔
یاد رہے کہ 21 اکتوبر کو صوبائی محکمہ آثار قدیمہ نے ڈپٹی کمشنر سوات کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ والی سوات کے گھر کو تحویل میں لیا جائے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ’والی سوات نے پوری زندگی لوگوں کی بہبود میں گزاری اور سکول، ہسپتال، سڑکیں تعمیر کیں۔ والی سوات کی رہائش گاہ اہم ورثے کی عمارت ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں اس کی حفاظت کی جائے۔‘

خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ والی سوات کا گھر سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے (فوٹو:محکمہ آثار قدیمہ)

خط کے متن کے مطابق ’یہ عمارت سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس لیے گزارش ہے کہ سیکشن فور لگا کر اس کو جلد حاصل کیا جائے۔‘
یاد رہے کہ والی سوات کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسلام آباد ہائیکورٹ میں کئی مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں جن میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس بھی شامل ہے۔
فاضل جج نے گذشتہ سماعت پر ریمارکس دیے تھے کہ وزیراعظم کو ملنے والے تحائف میوزیم میں رکھنے چاہییں۔
اس سے قبل پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی معلومات عام شہری کو فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

شیئر: