Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

او آئی سی کا افغانستان کے لیے خصوصی اسلامک ڈیولپمنٹ فنڈ کے قیام کا اعلان

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے امید ظاہر کی کہ ’افغانستان کی مدد کے لیے رکن ممالک کوئی واضح لائحہ عمل طے کریں گے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر پرائم منسٹر آفس)
اسلام آباد میں سعودی عرب کی قیادت اور پاکستان کی میزبانی میں افغانستان کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کے اختتام پر او آئی سی سکریٹری جنرل نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’افغانستان کے لیے خصوصی اسلامک ڈیولپمنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے جس میں ممالک، گروپس حتی کہ افراد بھی عطیات دے سکیں گے۔‘
اتوار کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے او آئی سی سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے کہا کہ ’اس کانفرنس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کو کریڈٹ جاتا ہے۔‘
’سعودی عرب اور پاکستان کو افغان بھائیوں کے لیے کوشش کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
او آئی سی سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ 40 برسوں میں جب سے افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں، یہ کانفرنس افغان معاملے پر ایک عظیم ترین ایونٹ ہے۔‘
حسین ابراہیم طحہٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے فنڈ قائم کیا ہے مگر ابھی افغان حکام سے رابطے میں نہیں ہیں۔ ان سے رابطہ کر کے ان کی ضرورت کے بعد عطیات جمع کرنا شروع کر دیں گے۔‘

حسین ابراہیم طحہٰ نے کہا کہ ’اس کانفرنس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کو کریڈٹ جاتا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’کچھ ممالک عطیہ دینا چاہ رہے تھے مگر وہ ایک قابل قبول اکاؤنٹ چاہتے تھے۔ وہ براہ راست عطیہ نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ ایک مکینزم بنانا چاہتے تھے۔‘
’اب مکینزم بن گیا ہے۔ اب اکاؤنٹ بن جائے گا تو پھر عطیات آنا شروع ہو جائیں گے۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ابھی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا وقت نہیں آیا۔‘
’آج اقوام متحدہ کے سسٹم سے اطلاع آئی ہے کہ جب سے طالبان نے حکومت سنبھالی ہے تب سے ٹیکس جمع کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ’افغان وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ کرپشن کم ہوئی ہے تاہم امریکہ اور برطانیہ کے نمائندوں کا خیال ہے انہیں اپنی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔‘
’کئی جگہوں پر افغانستان میں سکولز کھل گئے ہیں۔ کچھ ابھی نہیں کھلے لیکن افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اگلا مرحلہ مارچ میں آئے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ترکمانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ سے کہا کہ آپ افغان کانفرنس پر دہلی جا رہے ہیں تو انڈیا سے کہیں کہ اپنا منفی رویہ ترک کر دے اور مثبت رویہ اپنائے۔ ہم انڈیا نے 'نیک خواہشات' کو سمجھتے ہیں اس لیے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیتے۔‘
قبل ازیں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ٹرسٹ فنڈ کے قیام، کابل میں تنظیم کے مشن کو مضبوط بنانے اور افغان عوام کو خوراک کی فوری فراہمی سمیت متعدد اقدامات کی منظوری دے دی گئی۔
اسلام آباد میں سعودی عرب کی جانب سے بلائے گئے اجلاس سے خطاب میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’افغانستان میں انسانی بحران پورے خطے کے استحکام کو متاثر کرے گا۔‘

اجلاس میں شرکت کے لیے 20 ممالک کے وزرائے خارجہ، 10 نائب وزرائے خارجہ سمیت 70 وفود آئے۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

انہوں نے افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے امید ظاہر کی کہ ’افغانستان کی مدد کے لیے رکن ممالک کوئی واضح لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مسودے کے مطابق ’افغانستان کی 60 فیصد آبادی بھوک کی بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور اجلاس اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق خصوصی اجلاس میں افغانستان میں انسانی امداد کے لیے ایک ٹرسٹ فنڈ کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے جس کے ذریعے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی امداد منظم کی جائے اور افغانستان کی معیشت کی ضروری مدد فراہم کی جائے۔
اجلاس میں اسلامی ترقیاتی بینک سے کہا گیا ہے کہ دسمبر کے آخر تک اس انسانی ٹرسٹ فنڈ کو فعال بنائے۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق او آئی سی کا جنرل سیکریٹریٹ کابل میں تنظیم کے مشن کو فوری طور پر مالی، لاجسٹک اور انسانی وسائل کے لحاظ سے مؤثر اور مضبوط بنائے گا تاکہ وہ دنیا کے ساتھ اشتراک کا ذریعہ بنے اور افغانستان میں امدادی کارروائیاں آگے بڑھائے۔
 اجلاس نے اس بات پر زور دیا کہ ’افغانستان کو اس کے مالی وسائل تک رسائی ملک کو ناکامی سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔‘
یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمند کر رکھے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا بینکنگ نظام منجمد کیا جا چکا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر پرائم منسٹر آفس)

اجلاس انسانی صورتحال کے باعث ’ان ذخائر کو غیر منجمند کرنے کے ممکنہ طریق کار کا بھی جائزہ لیا اور او آئی سی سکریٹریٹ اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں بات چیت کا آغاز بھی کرے گا۔‘
اسی طرح او آئی سی سکریٹریٹ افغانستان میں کورونا ویکیسن کی فراہمی اور دیگر طبی سپلائی کی فراہمی کے لیے عالمی ادارہ صحت سے بات چیت بھی کرے گا۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق افغانستان میں خوراک کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی فوڈ سکیورٹی ریزرو سسٹم کے قیام پر بھی غور کیا جائے گا۔
اجلاس میں افغان حکام پر زور دیا جائے گا کہ ’اقوام متحدہ اور او آئی سی کے چارٹر کے مطابق ملک میں انسانی حقوق خاص کر خواتین، بچوں اور بزرگوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔‘
مسودے کے مطابق اجلاس اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ ’افغانستان میں معاشی بدحالی سے بڑے پیمانے پر مہاجرین کا انخلا، دہشت گردی کے فروغ اور عدم استحکام کا خدشہ ہے، جس سے خطے اور عالمی امن کے لیے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
اجلاس میں شرکت کے لیے 20 ممالک کے وزرائے خارجہ، 10 نائب وزرائے خارجہ سمیت 70 وفود آئے۔ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ، سیکریٹری خارجہ اور اعلیٰ حکام پاکستان پہنچے۔
رکن ممالک کے علاوہ پی فائیو ممالک اور دنیا کے اہم ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے اور عالمی مالیاتی اداروں کے اعلیٰ افسران نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کی قیادت کے لیے چھ نکاتی فریم ورک تجویز کیا۔ (فوٹو: پاکستان دفتر خارجہ)

اجلاس سے کلیدی خطاب میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے اور اگر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا تو پڑوسی ملک افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے عالمی برادری خصوصا امریکہ سے اپیل کی کہ ’وہ طالبان اور افغانستان کے چار کروڑ لوگوں کے درمیان امتیاز کرے اور ان کی امداد کو مشروط نہ کرے۔‘
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا بینکنگ نظام منجمد کیا جا چکا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک اس حوالے سے کردار ادا کر سکتا ہے۔
افغانستان میں افراتفری کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ ایک مستحکم افغانستان ہی خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا چھ نکاتی فرہم ورک

قبل ازیں اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کی قیادت کے لیے چھ نکاتی فریم ورک تجویز کیا۔
فریم ورک کے پہلے نکتے کے مطابق او آئی سی کے ذریعے عالمی برادری اور رکن ممالک کو افغان عوام کی مدد کا ایک متبادل ذریعہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ افغان عوام کی براہ راست مدد کر سکیں۔
2: ہمیں افغان نوجوانوں کو تعلیم، صحت اور فنی اور پیشہ ورانہ مہارت جیسے شعبوں میں دو طرفہ کاوشوں یا او آئی سی کے ذریعے افغانستان کے لوگوں میں سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق کرنا چاہیے۔
3: او آئی سی، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر مشتمل ماہرین کا ایک گروپ قائم کیا جائے تاکہ افغانستان کی جائز بینکنگ خدمات تک رسائی کو آسان بنانے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کیا جائے، اور افغان عوام کے لیے رقم کی عدم دستیابی کے سنگین چیلنج کو کم کیا جائے۔

پی فائیو ممالک اور دنیا کے اہم ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے بھی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر پرائم منسٹر آفس)

4: ہمیں افغان عوام کے غذائی تحفظ کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی اس کوشش کی رہنمائی کر سکتی ہے اور کرنی چاہیے۔
5: دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات کی غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کے لیے افغان اداروں کی استعداد کار بڑھانے میں سرمایہ کاری کی جائے۔
6: بین الاقوامی برادری کی توقعات کو آگے بڑھانے میں مدد کے لیے افغان حکام کے ساتھ سیاسی اور سماجی شمولیت، انسانی حقوق کا احترام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بات چیت کریں۔

شیئر: