Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں کرسمس پہلے سے زیادہ قابل قبول کیسے؟

دکانوں میں کرسمس کے تحائف دکانوں میں سجائے گئے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں پہنچنے والے غیرملکی سیاحوں کی بڑھتی تعداد مملکت کے اس رجحان کی مظہر ہے کہ برداشت اور رواداری کے حوالے سے کرسمس کی تقریبات کا انعقاد مملکت کے اصلاحاتی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔
امریکی شہری سڈنی ٹرن بیل گذشتہ سات برسوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، عرب نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب وہ پہلی دفعہ سعودی عرب آئیں تو کرسمس صرف ایک چھٹی کا دن تھا جو سختی کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے منایا جاتا تھا۔
’آپ نے لوگوں کی کرسمس ٹریز کی سمگلنگ اور نجی طور پر کرسمس منانے کے بارے میں کہانیاں سنی ہوں گی لیکن آپ نے کبھی بھی باہر سجاوٹ یا رنگ برنگی روشنیاں نہیں دیکھی ہوگی جیسا امریکہ میں ہوتی ہیں۔‘
تاہم گذشتہ کچھ برسوں میں یہ سب بدل چکا ہے۔ دکانوں میں کرسمس کی تقریبات سے متعلق چیزیں اور تحائف  نظر آتے ہیں۔
سڈنی ٹرن بیل کا کہنا ہے کہ ’وہ اس وقت حیران ہوگئی جب ایک مقامی کیفے اور ریستوران نے کرسمس سے متعلق مخصوص کلینڈر پیش کیا۔‘
’گذشتہ دن مجھے ریاض کے ایک ریستوران سے ای میل موصول ہوئی جہاں نیا سال منانے کی تقریب ہوگی۔ یہ بات کچھ سال پہلے تک نہیں سنی گئی ہوگی۔‘
جدہ میں رہائش پذیر 35 برس کے اطالوی انریکو کیتینیا نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’کورونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں سفری پابندیوں کے باعث رواں برس کی تقریبات قدرے مختلف ہوں گی۔‘
انریکو کیتینیا کرسمس دوستوں کے ساتھ منائیں گے اور اپنے خاندان سے نہیں ملیں گے۔
اس مرتبہ سعودی عرب میں کرسمس تقریبات سے متعلق بڑھتی ہوئی قبولیت کا مطلب ہے کہ وہ خود کو گھر ہی میں محسوس کریں گے۔

سڈنی ٹرن بیل نے بتایا کہ  سعودی کولیگس نے ان کو تحائف دیے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انریکو کیتینیا کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے ہمیشہ اپنے قریبی عزیزوں کے ساتھ کرسمس کا تہوار منایا ہے لیکن یہاں 2015 کے بعد ایک ایسی ثقافت منانے میں نمایاں نرمی دیکھی گئی ہے جس کی پہلے اجازت نہیں تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حالیہ دنوں میں ثقافتی فرق کے باوجود دیگر تہواروں کے بارے میں آگاہی اور قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
سڈنی ٹرن بیل نے بتایا کہ ’یہاں تک کہ میرے سعودی کولیگز نے مجھے کرسمس کے تحائف دیے جو ایک محبت بھرا پیغام ہے اور ایک اور مثال ہے کہ یہاں لوگ کتنے پرجوش اور مہمان نواز ہیں۔‘
سعودی خاتون اشواغ بمحفوظ نے کہا ہے کہ ’کرسمس پر ان کے شوہر کے فلپائن کے دوستوں نے ان کو مدعو کیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لبنانی سُنی ہونے کے باوجود کرسمس مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔‘
’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرسمس اور نئے سال کو منانا ٹھیک ہے جیسے ہم ہجری سال مناتے ہیں۔‘

اطالوی شہری انریکو کیتینیا سعودی عرب میں کرسمس دوستوں کے ساتھ منائیں گے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ دوسروں کی جانب رواداری اور قبولیت مبنی رویے کی جانب مملکت کے اقدام سے متعلق پرجوش ہیں۔‘
جامعہ الامیرہ نورہ میں انگلش کی استانی منیرہ النجیمن نے بتایا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ بہت سے سعودی شہریوں نے رواداری کے نظریے کو غلط سمجھا ہے۔‘
’میں ثقافتی رواداری پر پختہ یقین رکھتی ہوں جس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب میں مسیحیوں کو اپنے مذہبی عقائد منانے کی اجازت دی جائے۔ میں خود نہیں مناتی کیونکہ وہ میری مذہبی یا ثقافتی شناخت کی عکاسی نہیں کرتے۔‘
ڈینٹسٹ معاویہ الحاضم نے نیویارک سے تعلیم حاصل کی، وہ کہتی ہیں کہ مملکت واپسی کے بعد ان کو کرسمس کا ماحول یاد آتا ہے۔
’میں اس کو مذہبی طور پر نہیں مناتی کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں۔ لیکن دوسرے لوگوں کی خوشی کا حصہ بننا ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ مجھے یہاں کرسمس کی کئی تقریبات میں مدعو کیا گیا ہے۔‘

شیئر: