Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سعودی عرب رولز روئس کی نمبر ون مارکیٹ بن سکتا ہے‘

رولز روئس کے سربراہ ٹورسٹن ملر نے عرب نیوز کو خصوصی انٹرویو دیا۔ فوٹو عرب نیوز
لگژری گاڑیوں کی کمپنی ’رولز روئس‘ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مملکت میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے باعث سعودی عرب خطے میں اس ایلیٹ گاڑی کی بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے۔
برطانوی کمپنی رولز روئس کے سربراہ ٹورسٹن ملر نے عرب نیوز  کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں سعودی عرب میں گاڑیوں کی مارکیٹ پر بات چیت کی۔
ٹورسٹن ملر نے 2017 کے شاہی فرمان جس میں سعودی خواتین کو پہلی مرتبہ  گاڑی چلانے اور لائسنس حاصل کرنے کا حق دیا تھا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’سعوی عرب ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ آئندہ سالوں میں سعودی عرب سے مزید صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں گی کیونکہ مارکیٹ مزید پھل پھول رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ سعودی خواتین رولز روئس چلاتی ہوئی نظر آتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے آئندہ چند سالوں میں سعودی عرب گاڑیوں کی ایک بڑی مارکیٹ بن جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شاید ایک دن پورے خطے میں سعودی عرب ایک بڑی مارکیٹ بن جائے، صلاحیت کے اعتبار سے یہ بالکل ممکن ہے تاہم اس کا انحصار چند دیگر پہلوؤں پر بھی ہے۔
ایلیٹ گاڑی رولز روئس ایک 115 سال قبل برطانیہ میں بننا شروع ہوئی تھی لیکن سال 2003 میں مشہور جرمن کمپنی بی ایم ڈبلیو نے اس خرید لیا تھا۔ کیلی فورنیا سے لے کر شنگھائی تک یہ پرتعیش گاڑی سٹیٹس کی علامت ہے لیکن عرب ممالک میں یہ خاص اہمیت رکھتی ہے۔
ٹورسٹن ملر نے بتایا کہ رولز روئس کا الیکٹرک ماڈل ’سپیکٹر‘ سال 2023 میں مشرق وسطیٰ میں دستیاب ہوگا۔

رولز روئس کے فینٹم ماڈل کی مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ طلب ہے۔ فوٹو شٹر سٹاک

انہوں نے سپیکٹر ماڈل کی خوبیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرک ہونے کے علاوہ اس کی تیاری میں لگژری یعنی عیش و آرام کے اعتبار سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔
سپیکٹر کی قیمت سے متعلق اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ تین لاکھ 50 ہزار ڈالر کے قریب ہوگی جس کے انجن کی تیاری میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہ کم سے کم آواز پیدا کرے۔
اگرچہ گزشتہ چند سالوں سے بڑی کمپنیوں کا رجحان الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی طرف ہو رہا ہے تاہم ٹورسٹن ملر نے واضح کیا کہ چند روایتی خصوصیات کے باعث رولز روئس کی مارکیٹ میں طلب قائم ہے۔
’رولز روئس محض اپنے انجن کی بنیاد پر ہی نہیں پہچانی جاتی۔ ہم ایسا نہیں کرتے۔ ہماری پہچان اعلیٰ معیار کی لگژری فراہم کرنا ہے۔ ہماری گاڑیاں سب سے اعلیٰ مواد اور بہترین کاریگری سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس ایک خوبصورت شاہکار کے بننے میں کم از کم ایک ہزار گھنٹے لگتے ہیں۔‘
گزشتہ بارہ سالوں سے رولز روئس کے سربراہ کے فرائض نبھانے والے ٹورسٹن ملر کا کہنا تھا کہ اس لگژری گاڑی کے خریداروں کی اوسط عمر 56 سے کم ہو کر 43 ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کم عمر کے افراد رولز روئس خرید رہے ہیں۔

عرب کے صحراؤں میں بھی کیولینن ماڈل کی کامیاب ٹیسٹ ڈرائیو ہو چکی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

ٹورسٹن ملر کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ خواتین رولز روئس چلانے کی خواہش مند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بارہ سال قبل پوری دنیا میں صرف ایک فیصد خواتین رولز روئس کی خریدار تھیں جو اب پندرہ فیصد ہو گئی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں خواتین خریداروں کا تناسب 20 فیصد ہے۔
عرب ممالک میں رولز روئس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم اور دوسری جنگ عزیم کے دوران قائدانہ صلاحیت فراہم کرنے والے ونسٹن چرچل نے سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز کو جنگ کے بعد رولز روئس کا فینٹم ماڈل تحفے میں پیش کیا تھا۔
کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں رولز روئس کی پروڈکشن میں تعطل کے باعث فروخت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی تھی لیکن بحالی کے بعد مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں اس لگژری کار کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔
ابتدائی لاک ڈاؤن کے بعد لگژری اشیا کی مجموعی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ٹورسٹن ملر نے کہا کہ ’بہت سے گاہکوں نے مجھے خود بتایا کہ انہیں احساس ہوا کہ اچانک کسی بھی وقت ان کی موت واقع ہو سکتی ہے اور اکثر کو تو قریب سے بھی اس کا تجربہ ہوا۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ انسان صرف ایک ہی مرتبہ زندگی گزارتا ہے تو کیوں نہ اپنی زندگی ابھی انجوائے کریں بجائے آئندہ دنوں تک کے لیے ملتوی کرنے کے۔‘

اردن کے شاہ عبداللہ ثانی کی رولز روئس میوزیم میں رکھی گئی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

خلیجی ممالک میں رولز روئس کی کیو لینن ایس یو وی کار اور بلیک بیج گوسٹ کی سب سے زیادہ طلب رہی ہے۔
رولز روئس کے سربراہ ٹورسٹن ملر نے کہا کہ ’خلیجی ممالک میں تیل کی قیمتیں معیشت کی صحت کا تعین کرتی ہیں اور ہمارا انحصار بھی معیشت پر ہی ہوتا ہے۔ اگر معیشت ترقی کرے گی تو ہم بھی ترقی کریں گے۔‘

شیئر: