Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیشنل سکیورٹی پالیسی کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس پالیسی میں ریاست کی سمت طے گئی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے قومی سلامتی پالیسی منظور کر لی ہے، جسے منگل کو وفاقی کابینہ میں باضابطہ منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ 
وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق ’قومی سلامتی پالیسی ایک جامع قومی سکیورٹی فریم ورک کے تحت  شہریوں کے تحفظ، سکیورٹی اور وقار کو یقینی بنائے گی، شہریوں کے تحفظ کی خاطر پالیسی کا محور معاشی سکیورٹی ہوگا، معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔‘
اعلامیے کے مطابق ’پالیسی سازی کے دوران تمام وفاقی اداروں، صوبائی حکومتوں، ماہرین اور پرائیویٹ سیکٹر سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔‘ 
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے سکریٹری جنرل احسن اقبال نے نیشنل سکیورٹی پالیسی منظور ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن نے پاکستان کی پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی 2014- 18 بنائی تھی جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف مؤثر کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد سکیورٹی پالیسی 2018-2023 منظور کی جس پر گذشتہ  تین سال رتی برابر عمل نہیں کیا گیا۔‘ 
اپنے ٹویٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’یہ پالیسی انہی کا تسلسل ہے، ہر چیز پہلی بار کے خبط سے نکلیں، بس چلے تو کہیں گے پاکستان بھی 2018 کو قائم ہوا تھا۔‘ 
نیشنل سکیورٹی پالیسی کیا ہے؟ 
حکومتی ذرائع کے مطابق ’پاکستان میں پہلی مرتبہ تحریری طور پر نیشنل سکیورٹی پالیسی تیار کی گئی ہے، جس کا مسودہ سات برسوں میں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا گیا۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی پانچ سال کے لیے تیار کی گئی ہے جس پر ہر سال نیشنل سکیورٹی کمیٹی نظرثانی کرے گی۔‘ 
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس پالیسی میں ریاست کی سمت طے گئی ہے جس میں انسانی تحفظ، اکنامک سکیورٹی اور پاکستان کے اندر امن و امان کی صورتحال اور خطے میں امن قائم کرنے کے حوالے سے اقدامات پالیسی کا اہم جزو ہیں۔‘ 
’اس میں بنیادی طور پر فوڈ سکیورٹی، قومی وسائل کی سکیورٹی، ملک کے لیے اندرون و بیرونی خطرات، اس کے علاوہ تیل کے ذخائر کتنے ہیں، مزید ذخائر کتنے تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ملک میں پانی کی ضرورت کتنی ہے اور آئندہ پانچ برسوں میں کتنے وسائل کی ضرورت ہوگی اور ان کو کیسے استعمال میں لایا جائے گا۔‘

حکومتی اعلامیے کے مطابق ’قومی سلامتی پالیسی ایک جامع قومی سکیورٹی فریم ورک کے تحت  شہریوں کے تحفظ، سکیورٹی اور وقار کو یقینی بنائے گی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ذرائع نے بتایا کہ ’اس پالیسی کے تحت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی چھتری کے تلے وزارتیں اور صوبائی حکومتیں اقدامات کریں گے جبکہ اس پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے رپورٹنگ کا ایک میکنزم بھی وضع کیا جائے گا جس سے پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے نظر رکھی جائے گی۔‘ 
نیشنل سکیورٹی پالیسی کی اہمیت کیا ہے؟  
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’نیشنل سکیورٹی پالیسی غیرعلانیہ طور پر پہلے سے موجود تھی، جس میں زیادہ تر خارجہ پالیسی اور ملک کو درپیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تیار کی جاتی تھی لیکن کبھی بھی ہم نے ایک جامع پالیسی نہیں بنائی جس میں معاشی صورتحال، فوڈ سکیورٹی، پاکستان کے وسائل کا تحفظ شامل ہوں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ‘ایک جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہم کسی بھی بحران سے نمٹنے میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، جیسے انرجی کا بحران ہے تو اس کے لیے فعال اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ آئندہ پانچ برسوں کے لیے کتنے گیس اور دیگر ذرائع کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے متعلقہ محکموں کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔‘ 
دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل سکیورٹی پالیسی بنانے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں سے مشاورت کی جاتی ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف رائے رکھنے والوں کی آواز کو دبایا گیا ہے۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز یا کسی ایسے تھنک ٹینک سے رائے نہیں لی گئی جو ایک مختلف رائے رکھتے ہیں۔‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑا چیلنج اکنامک چیلنجز کے ساتھ ساتھ پانی اور فوڈ سکیورٹی کے مسائل ہیں اور اس پالیسی میں اپوزیشن کی رائے شامل نہیں۔‘ 
لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق اس پالیسی کو مرتب کرنے میں تاخیر کی وجہ تمام سٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر نہ ہونا ہے۔
’کوئی بھی نئی چیز کرنے کے لیے وقت لگتا ہے اور اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر لانا مشکل کام ہے اور آسانی سے سب کو اکٹھا کرنا مشکل عمل ہے اس لیے اس میں تاخیر ہوا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’دوسری وجہ ہمارے پاس ڈیٹا کی کمی تھی جو اکٹھا کرنا ایک طویل مرحلہ ہوتا ہے، تمام محکموں سے ملکی ذخائر اور دیگر وسائل کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تیسری وجہ یہ ہے کہ مختلف اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن قائم کرنا بھی آسان نہیں اور جتنے بھی محکمے یا ادارے ہیں، ان کے درمیان باہمی رابطوں کا بھی فقدان ہے اور اس پالیسی کے تحت ایک مربوط کاوشوں کا ایک نظام تیار کیا گیا ہے۔‘ 
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق ’نیشنل سکیورٹی پالیسی مرتب کرنے میں 8 سال اس لیے لگے کیونکہ سول قیادت اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں تھے اور اب نیشنل سکیورٹی پالیسی تو متعارف کروا دی گئی ہے لیکن جب ملک میں احتساب کا عمل نہ ہو تو پالیسی کیا لائیں گے؟‘  
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ پالیسی ہائیبرڈ گورنمنٹ کے فارمولے کو آگے بڑھانے کا حصہ ہے اور اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ سیاسی حکومتوں نے کبھی سیکھنے کی کوشش نہیں کہ کوئی ڈاکیومنٹ بنانے سے ملک ترقی نہیں کرے گا بلکہ اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: