Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ کیسا ملک ہے؟‘ انڈیا میں انٹرنیٹ ایپ پر مسلمان خواتین کی ایک بار پھر ’نیلامی‘

اس سے قبل ’سُلی بائی‘ ایپ کے ذریعے بھی مسلمان خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’یہ بہت افسردگی کی بات ہے کہ بحیثیت مسلمان عورت آپ کو نئے سال کا آغاز ڈر اور نفرت کے احساس کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ یقیناً میں اکیلی نہیں جسے ’سُلی ڈیلز‘ کے اس نئے ورژن میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں انڈین صحافی عصمت آرا کے، جن کی تصویر انٹرنیٹ پر ایک ’بُلی بائی‘ نامی ایپلی کیشن پر اپلوڈ کی گئی ہے۔
عصمت آرا کی جانب سے شیئر کیے جانے والے سکرین شاٹ پر لکھا ہے ’یور بُلی بائی آف ڈے از‘ اور نیچے ان کی تصویر لگی ہے۔
اس ایپلی کیشن کو مائیکروسافٹ کے سافٹ ویئر شیئرنگ پلیٹ فارم ’گِٹ حب‘ پر بنایا گیا تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق لوگوں کی طرف سے شکایات کے اندراج کے بعد اس ایپلی کیشن کو بنانے والے صارف کو اس پلیٹ فارم سے بلاک کر دیا گیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ایک انٹرنیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے انڈیا میں مسلمان خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ گذشتہ سال جولائی میں ایک ایسی ہی ایپلی کیشن ’سُلی ڈیلز‘ بنائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ’سُلی‘ ایک ہتک آمیز لفظ ہے جو ہندو انتہا پسند مسلمان خواتین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسلمان خواتین کی انٹرنیٹ پر موجود تصاویر کو ’سُلی ڈیلز‘ نامی ایپلی کیشن پر ڈالا گیا تھا اور ان کے لیے ’ڈیلز آف دا ڈے‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا جس سے مراد خواتین کی انٹرنیٹ پر ’نیلامی‘ کرنا تھا۔
اس ایپلی کیشن کو بھی متعدد شکایات کے بعد ’گِٹ حب‘ کی جانب سے بلاک کیا گیا تھا۔ اب یہ نئی ایپلی کیشن ’بُلی بائی‘ بھی خواتین کو اسی طرح نشانہ بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔
اس ایپلی کیشن پر نشانہ بننے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اگر پہلی بار اس ایپلی کیشن کے پیچھے موجود لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تو آج دوبارہ ایسا نہیں ہوتا۔
ھنا محسن خان نامی صارف کارروائی نہ ہونے پر انڈیا کی حکومت سے ناراض نظر آتی ہیں۔
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسا سوشل سسٹم ہے جہاں پولیس اور حکومت اپنی خواتین کی آن لائن نیلامی کی اجازت دیتی ہیں؟‘
انہوں نے مزید لکھا ’کیا ایسے ملک کو تہذیب یافتہ کہا جا سکتا ہے؟‘
ٹوئٹر پر خواتین کے حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے بنائے گئے اکاؤنٹ ’می ٹو انڈیا‘ نے اس حوالے سے لکھا کہ ’پولیس اور حکام کب اٹھیں گے؟ پولیس کو سینکڑوں پیغامات (شکایات) دینے اور ملزمان کو گرفتار کرنے کی درخواست کے باوجود خواتین پر تشدد اب تک کیسے جاری ہے؟‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’ان کا کیا ہوا جنہوں نے سُلی ڈیلز شروع کیا تھا؟‘

انڈین سیاسی جماعت ’شو سینا‘ کی راجیا سبھا میں رکن پریانکا چترویدی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے کئی بار انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے وزیر اشون ویشنو سے کہا تھا کہ خواتین کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ اس معاملے کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے آئی ٹی کے وزیر کا کہنا ہے کہ ’گِٹ حب نے تصدیق کی ہے کہ اس صارف کو آج صبح بلاک کر دیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی ’کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم‘ اور پولیس حکام بقیہ کارروائی کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب دہلی پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’متعلقہ حکام کو مناسب کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔‘ 
تاہم صارفین کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب سُلی ڈیلز ایپلی کیشن منظر عام پر آئی تھی تب بھی حکام کی جانب سے کارروائی کرنے کے ایسے ہی دعوے کیے گئے تھے۔
نبیہ خان نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں دہلی پولیس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا اور کہا کہ انہوں نے پچھلے سال جولائی میں ایک ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اس کے اندراج کی کاپی انہیں آج تک نہیں دی گئی۔
’پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ اس بار آپ کیا کارروائی کریں گے؟‘

شیئر: