Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقبال کی رہنمائی کرنے والی عطیہ فیضی پر پاکستان میں کیا بیتی؟

1907 میں عطیہ فیضی نے اقبال کی دعوت پر کیمرج کا دورہ کیا۔ (فوٹو: وینٹیج پاکستان)
علامہ اقبال کو جرمنی سے واپسی پر برصغیر کے دو اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے منسلک ہونے کی پیشکش ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور نے انہیں فلسفے کے پروفیسر کی ملازمت کا عندیہ دیا۔ اقبال نے اس پیشکش پر وکالت کو ترجیح دی۔
ابتدائی دو برسوں میں انہیں احساس ہو گیا کہ وکالت سے ان کی معاشی زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا۔ ایسے میں انہوں نے ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا۔ اسی سلسلے میں وہ 1907 میں ریاست کے وزیر خزانہ سر اکبر حیدری کے مہمان کی حیثیت سے کئی دن ریاست میں مقیم رہے۔
لاہور واپسی پر انہیں یکے بعد دیگرے دو خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن میں اس مجوزہ  خیال پر ان کی سخت سرزنش کی گئی تھی۔ خود اقبال نے اس دوستانہ تنبیہہ کو ’میٹھی جھڑکیوں‘ اور ’ملامت نامہ‘ جیسے لفظوں سے یاد کیا ہے۔
خدا جانے خطوط میں کی گئی سرزش کا اثر تھا کہ کوئی اور وجہ اقبال اپنے ارادے سے باز رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ حیدر آباد کی سرکاری ملازمت میں چلے جاتے تو شاید اقبال نہ ہوتے۔
شاعر مشرق کے ارادوں کے راستے میں مزاحم  ہونے والی یہ ہستی عطیہ فیضی تھی۔ انہیں اندیشہ تھا کہ حیدرآباد جا کر اقبال اپنی ترجیحات اور توانائیوں کو کسی معمولی کام میں صرف نہ کر دیں۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں کسی مسلم خاتون کی ایسی بصیرت اور اثرپذیری غیر معمولی بات تھی۔ عطیہ کا تعلق اس دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کی بڑی بہن نازلی بیگم ریاست جنجیرہ کی رانی تھی۔ جبکہ ریاست حیدرآباد کے وزیر خزانہ ان کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
علم و فضل کی رسیا اور برصغیر کی نامور ہستیوں سے بے تکلفانہ تعلق رکھنے والی بیگم عطیہ فیضی چار جنوری 1967 کو کسمپرسی، ناقدری اور شکستگی کے عالم  میں دنیا سے رخصت ہوئی۔

رحمین نے عطیہ فیضی سے شادی کے بعد  اسلام قبول کرلیا اور فیضی کو اپنے نام کا مستقل حصہ بنایا۔ 

ثقافت اور جمالیات کی لاڈلی عطیہ بیگم کو ان حالات سے دوچار کرنے والے عناصر اور حالات کے تذکرے سے پہلے ان کی خیرہ کن زندگی کا بیان ہو جائے۔
عطیہ فیضی نے 1877 میں ہندوستان کے ایک عرب نژاد خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد حسن آفندی کو سلطنت عثمانیہ کے دربار تک رسائی حاصل تھی۔ جن کا کاروبار ہندوستان عراق اور استنبول تک پھیلا ہوا تھا۔
اس دور کے اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کی وجہ سے انہیں انگریزی، عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز پر جب ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم خال خال تھی انہوں نے حصول علم کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ خاندانی اثر و رسوخ اور ذہانت کی بدولت عطیہ فیضی نے جلد ہی انگلستان کی ہندوستانی کمیونٹی میں اپنی جگہ بنا لی۔
لندن میں ان کے شب و روز نامور ہندوستانی شخصیات کی معیت میں گزرتے تھے۔ ٹاٹا کمپنی کے بانی جمشید جی ٹاٹا، سروجنی نائیڈو کے علاوہ ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کے ساتھ ان کی صحبتیں رہنے لگی۔
گاندھی جی سے منفرد انداز سے آٹو گراف لینے کا واقعہ شاعر اور نثر نگار ماہرالقادری نے اپنی کتاب ’یاد رفتگاں‘ میں بیان کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی جب پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد بحری جہاز سے واپس آ رہے تھے تو عطیہ بھی اسی جہاز پر سوار تھی۔
انہوں نے بااصرار گاندھی جی کی انگلی میں پن چھبو کر ان کے خون کے نشان کو اپنی آٹو گراف بک پر ثبت کرکے ان کے دستخط کروا لیے۔
عطیہ  فیضی لندن کے شب و روز کا احوال ’تہذیب نسواں‘ نامی رسالے میں لکھا کرتی تھی۔ ان کی تحریروں پر مشتمل ڈائری ’زمانہ تحصیل‘ کے نام سے چھپ کر آئی تو اس نے ہندوستان کے اہل علم کو اپنی جانب متوجہ کر دیا۔ علامہ اقبال سے ان کے تعارف کا باعث بھی یہی ڈائری بنی۔
ان کی اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں ہندوستانی طلبہ کی یہودی نگران مس بیک کے گھر ہوئی۔ اقبال عطیہ کی پرکشش شخصیت اور تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کے ساتھ شاعری، تاریخ اور فلسفیانہ نکات پر گھنٹوں گفتگو کرتے۔

عطیہ فیضی کی اقبال سے پہلی ملاقات لندن میں ہندوستانی طلبہ کی یہودی نگران مس بیک کے گھر ہوئی۔

بیگم عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط کو انہوں نے ’اقبال‘ کے نام سے 1947 میں کتابی شکل دی۔ اقبال کی ذاتی اور شخصی زندگی کی تفہیم اور تشریح  کے لیے اس کتاب میں بہت سا سامان موجود ہے۔
1907 میں انہوں نے اقبال کی دعوت پر کیمرج کا دورہ کیا۔ لندن میں ہونے والی علمی محافل اور تفریحی پارٹیوں میں اقبال کی خوش مزاجی کے واقعات شاعر مشرق کی ذاتی دلچسپیوں کا خوبصورت بیان ہے۔
اپنے بھائی کے ہمراہ عطیہ فیضی کا جرمنی کے سفر میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبال کی تعلیمی اور تفریحی مصروفیات اور مشاغل کا پرلطف ذکر قاری کو ایک نئے اقبال سے آشنا کرتا ہے۔
اقبال پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ شدید یاس و قنوطیت کا شکار تھے۔ انہوں نے اپنی کیفیات اور ذاتی احساسات عطیہ فیضی کے نام خطوط میں بیان کیے۔
بقول جسٹس ایس اے رحمان اقبال کے پرستاروں کو عطیہ بیگم کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کے تشفی امیز طنز کے زیر اثر وہ اپنی زندگی کے نازک موڑ پر رجائیت کی طرف واپس پلٹے۔
عطیہ فیضی کی روز افزوں مقبولیت کا اثر تھا کہ ہندوستان کی بڑی علمی اور ادبی شخصیات ان کی جانب کھینچی چلی آتی تھی۔
معروف صحافی نصراللہ خان جن کو ریڈیو پاکستان کے لیے عطیہ فیضی کا انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا، کی تصنیف  ’کیا قافلہ جاتا رہا‘ میں عطیہ فیضی کے کمالات فن کا تذکرہ قلمبند کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ قلوپطرہ اور عطیہ فیضی کی داستان میں بہت ساری مماثلتیں ہیں۔ ایک ریاست کی حاکم تھی تو دوسری دلوں کی ملکہ۔ قلوپطرہ کی محبت میں سیزر اور انٹونی بری طرح پھنسے۔ عطیہ بیگم کی زلف گِرہ گیر کے گرفتار بڑے بڑے دانشور تھے۔
اس دور کے مسلم شاعروں اور ادیبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش خصائل اور سماجی میل جول کی حامل خاتون توجہ کا باعث بن گئی۔

علامہ شبلی نعمانی سمیت اس دور کے مسلم شاعروں اور ادیبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش خصائل خاتون توجہ کا باعث بن گئی۔
 

علامہ شبلی نعمانی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ان کے والد حسن آفندی سے استنبول میں مل چکے تھے۔ عطیہ سے تعارف اور تعلق شبلی کی زندگی کا رومانوی دور تھا۔ جس کا رنگین عکس ان کے مجموعہ کلام میں جھلکتا ہے۔
بقول شیخ اکرام مولانا کو اس قابل اور باکمال لڑکی نے جس طرح مسحور اور بے خود بنا دیا تھا اس کا اندازہ خطوط شبلی کے ورق ورق سے ہوتا ہے۔ شبلی بیگم عطیہ کی خوبیوں کا تذکرہ کر کے انہیں لکھتے ہیں کہ ان باتوں کے ساتھ اگر تم موسیقی سے بھی واقف ہو تو اجازت دو کہ لوگ تمہیں پوجیں۔
شبلی کے رنگین تذکروں اور والہانہ انداز بیان نے بہت سے اہل قلم کو اس حد تک غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ’شبلی کی حیات معاشقہ‘ جیسی کتاب منظر عام پر آئی۔
1950 میں ڈاکٹر وحید قریشی کی اس تصنیف نے تہلکہ مچا دیا۔ کتاب شبلی کی والہانہ وارفتگی کے ’چٹخارے دار‘ تذکرے سے بھری ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ بیگم فیضی کی جانب سے شبلی نعمانی پر طنز اور پھبتیوں کا عکس بھی ملتا ہے۔
اس کتاب کی مخالفت اور تنقید سے مجبور ہوکر ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی تصنیف کے مندرجات  سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ بعد کی زندگی میں جب وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوئے تو اس کے وابستگان نے لائبریریوں اور کتب خانوں سے اس کتاب کے نسخے ڈھونڈ ڈھونڈ کر چھپا لیے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک صاحب نے اس کی اشاعت نو کا اہتمام کیا ہے۔
خود عطیہ فیضی نے اس بحث اور زیب داستان کا جواب یوں دیا ’ہم نے مولانا کے خطوط کو معصومانہ روشنی میں دیکھا۔ کیوں کہ ان میں بظاہر ایسی کوئی بات نہ تھی کہ ہم سے کوئی کسی قسم کی بدگمانی کرتا۔ البتہ ان میں شاعرانہ شوخی ضرورت تھی۔ جو شاعر طبقے کا خاصہ ہے۔‘
فنون لطیفہ سے وابستگی عطیہ فیضی زندگی کا مرکز و محور تھا۔ ہندوستانی موسیقار پر ان کی انگریزی میں تین بے مثال کتابیں مقامی راگوں کو سمجھنے اور ان کی جمالیاتی خصوصیات کی تشریح سے بھرپور ہیں۔
موسیقی اور مصوری سے وابستگی ان کی رحمین سے شادی کا باعث بنی۔ ہندوستانی  یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والے رحمین کی جائے پیدائش پونہ تھی۔ بیرون ملک سے مصوری میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اس مصور کی تصویریں دنیا کے مختلف ممالک کی آرٹ میوزیم کا حصہ بنتی تھی۔ انہوں نے عطیہ سے شادی کے بعد نہ صرف اسلام قبول کرلیا بلکہ فیضی کو اپنے نام کا مستقل حصہ بنا دیا۔
شبلی نعمانی نے اس شادی اور رحمین کے مذہب کی تبدیلی کی طرف یوں اشارہ کیا۔
بتان ہند کافر کر لیا کرتے ہیں مسلم کو     
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلمان ہو گیا

عطیہ فیضی نے گاندھی جی کی انگلی میں پن چھبو کر ان کے خون کے نشان کو اپنی آٹو گراف بک پر ثبت کرکے دستخط کروا لیے۔ (فوٹو: آرکائیو)

بمبئی میں اس فنکار جوڑے کا گھر ’ایوان رفعت‘ شعر و نغمہ اور علمی محفلوں کا مرکز تھا۔ ان کے قریب ہی قائداعظم محمد علی جناح کا مالابار والا گھر واقع تھا۔ وہ ان کی آرٹ اور کلچر سے وابستگی سے بخوبی واقف تھے۔
قیام پاکستان کے بعد دونوں میاں بیوی قائداعظم کی خواہش پر پاکستان منتقل ہوگئے۔ انہوں نے جس جگہ رہائش اختیار کی وہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت تھی۔ فنکارانہ مزاج کا حامل یہ جوڑا زمین کی ملکیت اور کلیم داخل کرنے کی روایتی اور قانونی تقاضوں میں نہ پڑا۔ جس کی وجہ سے ادھیڑ عمر خاندان کے مسائل کا آغاز ہوا۔
بیگم عطیہ فیضی نے یہاں بھی ’ایوان رفعت‘ کے نام سے آرٹ گیلری قائم کی۔ جس میں  فیضی رحمین کے مصوری کے نمونے اور دیگر خاندانی فنکارانہ نوادرات رکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی المخزن کے نام سے لائبریری بھی اس کمپلیکس کا حصہ تھی۔ اسی عمارت کا دوسرا حصہ دونوں نے اپنی رہائش کے لیے مختص کر لیا تھا۔ محمد علی جناح سے تعلق اور عقیدت کی وجہ سے اس عمارت کو ان کے نام سے معنون کیا گیا۔
1958 کا مارشل لا جہاں پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کے خاتمے کا باعث بنا وہی یہ فنکار میاں بیوی کے لیے مصائب اور آلام بھی ساتھ لایا۔
کراچی میونسپل کارپوریشن نے 1960 کے ابتدائی برسوں میں میاں بیوی کو اس عمارت سے بے دخل کر دیا۔ جس کی تعمیر اور تزئین پر انہوں نے اپنے پلے سے 30 لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ کی تھی۔ بقول عطیہ فیضی انہیں محصور کرکے لائبریری کو مسمار کردیا گیا۔ دن کے اجالے میں نادر فن پاروں کو بے رحمی سے باہر پھینک دیا گیا۔
بیگم فیضی نے مجبورا اس دور کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایس اے رحمان کو خط لکھ کر مدد طلب کی۔ جن کی تحریر ’بیگم عطیہ فیضی کا المیہ‘ ان کو پیش آنے والے المناک واقعات کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
جسٹس ایس اے رحمان نے کمشنر کراچی کی توجہ بیگم عطیہ کے حالات کی طرف مبذول کروائی۔ جس پر کمشنر نے پی ڈبلیو ڈی کے منصوبہ بندی کے مشیر محسن علی کو ثالث مقرر کیا۔ انہوں نے فیصلہ دیا کہ عطیہ بیگم کو دو لاکھ بیس ہزار روپے معاوضہ دیا جائے اور بلڈنگ  کے ایم سی کے حوالے کی جائے۔
اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف 20 مئی 1963 کو جسٹس ایس اے رحمان کے نام عطیہ بیگم کا خط ان کی بے بسی اور سرکاری ضابطوں اور اہلکاروں کی بے حسی کا دکھڑا سناتا ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن ان کی شخصیت اور کارناموں کو خاطر میں لائے بغیر محض کچھ کاغذات کی بنیاد پر یہ عمارت اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ ان دونوں کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہ تھے۔ بے گھری اور بدحالی سے مجبور ہوکر انہوں نے آرٹ کے نادر نمونے فروخت کرنا شروع کر دیے۔
ماہر القادری کے بقول انھوں نے انتہائی قیمتی اور دیدا زیب فرنیچر جو کسی  میوزیم کی زینت بننا چاہیے تھا، سستے داموں گزر بسر کی خاطر بیچ ڈالا۔

ایوان رفعت کی بحالی کا آغاز نوے کی دہائی کے شروع میں ہوا۔ (فوٹو: ایکسپریس ٹریبیون)

وہ اپنے ایک واقف کار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بیگم عطیہ اتنی مجبور ہوگئی کہ ان سے پچاس روپیہ قرض مانگنے کی نوبت آگئی۔ قرض کے لیے ہاتھ پھیلاتے وقت ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔
انہوں نے جسٹس ایس اے رحمان کو قائداعظم تک کے نام پر انصاف کی دہائی دی۔ اور انہیں یہ پیشکش بھی کی کہ اگر یہ عمارت انہیں واپس مل جائے تو وہ مارشل لا حکام یا جج صاحب کے حوالے کرنے کو بھی تیار ہیں۔ بطور جج جسٹس صاحب نے ایک حد تک معاملہ حل کرنے کی کوشش کی۔ مگر اپنے منصب کی نزاکتوں اور زمین کی ملکیت کے گورکھ دھندوں جیسے قواعد نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔
کراچی کی تہذیبی اور سماجی زندگی پر تحقیقی مضامین لکھنے والے اختر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس دور کے کراچی کے کمشنر این ایم خان نے مارشل لا حکام کے کہنے پر بڑی رعونت  اور سنگدلی سے اس جوڑے کو عمارت سے بے دخل کیا۔ لائبریری کی عمارت اپنی نگرانی میں گرائیں۔ نادر و نایاب مصوری کے نمونوں کو خود اٹھا اٹھا کر پھینکتے رہے۔
اگست 1964 تک معاملات ہائی کورٹ اور میونسپل  کارپوریشن کے درمیان لٹکتے رہے۔ میاں بیوی نے کچھ عرصہ ہوٹل انٹر کانٹیننٹل میں رہائش اختیار کیے رکھی ؤ۔ جمع پونجی اور ذاتی نوادرات بھی ختم ہوگئے۔ انہوں نے اس وقت کے پی آئی اے کے چیئرمین نورخان سے دو کمروں کے مکان کی درخواست کی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ جب ہوٹل کا ساٹھ ہزار روپے کا بل واجب الادا ہوگیا تو مجبور ہوکر وہ نگار نام کے ایک سستے ہوٹل منتقل ہو گئے۔ اسی جگہ ان کی زندگی کے آخری ایام بسر ہوئے۔
اختر بلوچ کے مطابق یہ ہوٹل آج کل گودام کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کم از کم ان دونوں کی یادگار کے طور پر اس ہوٹل کو تو محفوظ کیا جانا چاہیے۔
سن 1964 میں زندگی کی ان تلخیوں میں فیضی رحمین انہیں دنیا میں تنہا چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔

عطیہ فیضی نے 1877 میں ہندوستان کے ایک عرب نژاد خاندان میں آنکھ کھولی۔ (فوٹو: وکی وینڈ)

کبھی جس پروقار خاتون کے دم سے ہندوستان کی اشرافیہ کی محفلیں سجا کرتی تھیں وہ علم و دانش کی ناقدری کی تصویر بن کر رہ گئی۔ یہاں تک  کہ نکبت اور افلاس کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئی۔
بیگم عطیہ کی یادگار اور کراچی آرٹس کونسل کے پڑوس میں واقع عمارت کی بحالی کا آغاز نوے کی دہائی کے شروع میں ہوا۔ ایوان رفعت کی بحالی کے مجوزہ منصوبے میں فیضی رحمین کے نام پر آرٹ گیلری اور میوزیم کی شاندار عمارت کی تعمیر اور تزئین شامل ہے۔ مگر تین دہائیوں سے زیادہ ہوگیا اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے کچھ سابق ایڈمنسٹریٹر اس عمارت کو اپنے دفتر کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
کے ایم سی  ذرائع کے مطابق مالی وسائل اور حکومتی عدم توجہ اس منصوبے کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 2013 کے بلدیاتی قوانین کی رو سے کے ایم سی صرف دو کروڑ روپے تک کے پراجیکٹ پر کام کر سکتی ہے۔ جب کہ اس عمارت کی تکمیل کا تخمینہ تقریباً 10 ارب روپے ہے۔
تقریبا 60 برس قبل بیگم عطیہ فیضی اور ان کے شوہر کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ہمارے سماج میں فنون لطیفہ اور کلچر کی گنجائش اور پذیرائی کا اظہار تھا۔ اس وقت بھی ایک فنکار جوڑا سرکاری قواعد اور بیوروکریسی کی روایتی حاکمیت پسندی کی نذر ہو گیا تھا۔ ان کے نام سے موسوم ایوان رفعت کی بحالی کا موجودہ منصوبہ بھی ٹھیک اسی طرح کے رویوں، ترجیحات اور حالات کا شکار ہے۔

شیئر: