Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سب رپورٹس کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی کاپیاں تمام فریقین کو دے دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پبلک نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔
منگل کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔
تحریک انصاف کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ یہ رپورٹ صرف فریقین کے لیے ہے اور انہیں ہی دی جائے۔
’ہم اس کا جائزہ لے کر جواب جمع کروائے گے اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ ‘
اس پر کمیشن نے کہا کہ ’یہ ان کیمرا کارروائی تو نہیں ہے۔ اوپن کورٹ کی کارروائی کو کیسے خفیہ رکھا جا سکتا ہے؟‘
تحریک انصاف کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ’دیگر جماعتوں کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی کا عمل مکمل ہونے دیں وہ رپورٹس بھی حتمی مرحلے میں ہیں، اس کے بعد سب کو اکٹھا دیکھیں۔‘
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سب رپورٹس کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا، رپورٹ کی کاپیاں تمام فریقین کو دے دیتے ہیں۔
شاہ خاور نے کمیشن سے ایک بار پھر استدعا کی کہ کمیشن آرڈر پاس کرے کہ فریقین اسے پبلک نہ کریں، ہمیں جانچ پڑتال کا موقع دیں۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ’ہم اس قسم کا آرڈر پاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔‘

سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ ’کمیشن میں یہ اتفاق ہے کہ رپورٹ کو پبلک کرنے کی ممانعت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

دوران سماعت اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ ’جوابدہ کے کہنے پر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ خفیہ نہیں رکھی جا سکتی۔ سب چیزیں اوپن ہوتی ہیں۔‘
سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ ’اوپن کورٹ میں ہم پابندی نہیں لگا سکتے، کمیشن میں یہ اتفاق ہے کہ رپورٹ کو پبلک کرنے کی ممانعت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ تمام فریقین کو فراہم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کی درخواست پر سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کر دی۔

’کیس کو مینج کیا جا رہا ہے‘

سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’کہ فارن فنڈنگ کیس ملک کی بقا کا معاملہ ہے، جلدی فیصلہ نہ سنایا گیا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کہ ’اس کیس کو مینج کیا جا رہا ہے۔‘
اکبر ایس بابر نے 10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں واضح کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے کیس کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
’سکروٹنی کمیٹی بننے کے بعد جو 10 چیزیں مانگی گئیں، اس کا آرڈر آج تک نہیں مانا گیا۔‘
اکبر ایس بابر کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین جولائی 2018 کو سکروٹنی کمیٹی نے سٹیٹ بینک کو خط لکھا کہ ’2009 سے 2013 تک فارن فنڈنگ کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جائیں۔‘

اکبر ایس بابر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’کہ فارن فنڈنگ کیس ملک کی بقا کا معاملہ ہے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’جس کے بعد 28 اکاؤنٹ الیکشن کمیشن کو دیے گئے اور تین سال ہونے کو ہیں کہ یہ ہم سے چھپائے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی سے درخواست کی گئی کہ اس کو جو مواد فراہم کیا گیا ہے وہ ہمیں دکھایا جائے، تو اس پر کمیٹی کی جانب سے جواب دیا گیا۔
’مواد اس لیے نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس پر پی ٹی آئی اعتراض کرتی ہے۔‘
اکبر ایس بابر کے مطابق ’اس بات پر سکروٹنی کمیٹی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔‘

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے۔
اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔

شیئر: