Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بائیکاٹ مری‘، کیا تمام ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے؟

ملک بھر سے چھٹیوں میں سیاحت کے لیے ملکہ کوہسار جانے والے اب وہاں حالیہ برفباری کے دوران پھنسنے والے سیاحوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے مری کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔
بائیکاٹ کی یہ مہم مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ شدید برفباری کے دوران ہوٹل کے کرائے اور دیگر ضروریات زندگی کے منہ مانگے دام وصول کرنے کے باعث سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔
اردو نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی حالیہ شدید برفباری کے دوران تمام ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے؟
مری کے ایک ہوٹل پر کام کرنے والے عمیر عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مری میں کچھ ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے اور دیگر اشیا بھی مہنگی کر دی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں اور مری میں صرف مقامی لوگوں کے ہوٹلز نہیں بلکہ دیگر علاقوں سے آ کر بھی لوگ یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ میں خود لاہور کے دو ایسے ہوٹل مالکان کو جانتا ہوں جنہوں نے کمروں کے کرائے بڑھا دیے تھے۔‘
عمیر عباسی نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ بعض ایسے ہوٹل مالکان کو بھی جانتے ہیں کہ جیسے ہی ان کو حالات کا پتہ چلا انہوں نے ملازمین کو یہ ہدایات جاری کیں کہ اگر کوئی ضرورت کے وقت آتا ہے تو اس سے پیسے نہ لیے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح یہاں ایک ایسا ہوٹل بھی ہے جس کی انتظامیہ نے اپنے ہوٹل میں سب کچھ فری کر دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو سانحے کے رونما ہوجانے کے ہوش آیا اور انہوں نے لوگوں سے گزارش کی کہ برفباری میں گاڑیوں میں پھنسے افراد کی مدد کی جائے۔ اس سے قبل ہی مری ہوٹل ایسوسی ایشن کے ذمہ داران یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہوٹلوں میں آنے والے افراد کی ہر ممکن مدد کی جائے۔‘
اس سے قبل اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے متعدد سیاحوں نے یہ شکایت کی تھی کہ مری کے علاقوں میں پریشانی کے باوجود ہوٹل مالکان نے کمروں کے کرائے ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیے تھے اور دکانداروں کی طرف سے بھی استعمال کی اشیا مہنگے داموں فروخت کی جارہی تھیں۔
مری میں امدادی کارروائیوں کے بعد حالات معمول کی طرف آنا شروع ہو گئے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری کا ٹرینڈ جاری ہے۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین مری کو چھوڑ کر ملک کے دیگر سیاحتی مقامات جانے کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ مری کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔
ٹوئٹر صارف تسمیہ مغل لکھتی ہیں کہ ’ہم سمجھدار لوگ ہیں ہم جانتے ہیں ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ گھر پر رہیں اور خود کو محفوظ رکھیں۔ ان دنوں مری میں ایک مافیا ہے جو ہر چیز دگنی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔‘ 

بعض سوشل میڈیا صارفین بائیکاٹ کی مہم پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ انہی میں سے خرم میمن بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ’بائیکاٹ کیوں؟ قواعد ضوابط کے تحت کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ اگر سیاحت ایک انڈسٹری ہے تو اس کو چلانے والے کہاں ہیں؟‘ 

انہوں نے مزید لکھا کہ ’کرائے اور سہولیات کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ بے کار ٹرینڈ صرف ایڈمنسٹریشن کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے۔‘ 
ٹوئٹر صارف طلال خان نے لکھا کہ ’ہم نے کتنی بار مری کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی، ہر مرتبہ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ہر حکومت اس مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘

شیئر: