Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرگ انسپکٹرز پکڑی جانے والی ادویات اپنے گھروں میں کیوں رکھتے ہیں؟

آفتاب باجوہ کے مطابق ’مال مقدمے کا گھر رکھنا بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ڈرگ کورٹ میں صورت حال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب چیئرمین ڈرگ کورٹ محمد نوید رانا کو یہ بتایا گیا کہ ڈرگ انسپکٹر مختلف مقدمات میں پکڑی جانے والی ادویات جو کہ مال مقدمہ کے زمرے میں آتی ہیں انہیں اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔  
چیئرمین ڈرگ کورٹ کی سربراہی میں ہونے والے انتظامی اجلاس میں چیف ڈرگ انسپکٹر پنجاب نے بتایا کہ ’عدالت کا مال خانہ نہ ہونے کی وجہ سے ادویات یا اس سے متعلق آپریٹس ڈرگ انسپکٹرز کو خود رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ عدالت کا اپنا مال خانہ ہے ہی نہیں۔‘
چیئرمین ڈرگ کورٹ نے اس بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ صحت کو حکم جاری کیا کہ وہ فی الفور عدالت کے لیے مال خانہ بنانے کا بندوبست کرے۔  
خیال رہے کہ ڈرگ کورٹس گذشتہ 22 برس سے کام کر رہی ہیں، تاہم ابھی تک مال مقدمہ رکھنے کے لیے عدالت کے پاس مال خانہ نہیں ہے۔
لاہور کے ایک ڈرگ انسپکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹا سا گودام کرائے پر لیا ہوا ہے، لیکن مال مقدمہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہزاروں کی تعداد میں ادوایات ہوتی ہیں اور گودام بھر چکا ہے تو انسپکٹر مال مقدمہ اپنے ساتھ گھروں میں لے جاتے ہیں اس کے سوا ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔‘
چیئرمین ڈرگ کورٹ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دو ایسے مقدمے گزرے ہیں جن میں مال مقدمہ، اصل مقدمے سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ملزمان کو چھوڑنا پڑا  یہ صورت حال کسی صورت قابل قبول نہیں۔  
چیف ڈرگ انسپکٹر پنجاب اظہر جمال سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم وہ دستیاب نہیں تھے۔ وہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔  
مال مقدمہ ہوتا کیا ہے؟  
ماہر قانون اور سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آفتاب باجوہ کے مطابق ’مال مقدمہ بنیادی طور پر ایک شہادت ہوتی ہے۔ اور پورے مقدمے کا دارومدار ہی اس پر ہوتا ہے۔

آفتاب باجوہ نے کہا کہ ’حیرت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں ایسے ایسے سقم موجود ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مثال کے طور پر کسی غیر قانونی چیز کو جب قانون نافذ کرنے والے ادارے پکڑیں تو ملزمان کے ساتھ ساتھ جو غیر قانونی چیز وہ بنا رہے ہوتے ہیں یا ان کے قبضے میں ہوتی ہے اس کو بھی تحویل میں لیا جاتا ہے۔ اور مقدمے کی سماعت کے دوران اس غیر قانونی چیز کو بھی کمرہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اسی کو مال مقدمہ کہتے ہیں۔‘  
انہوں نے بتایا کہ تمام عدالتوں کے مال خانے بنائے جاتے ہیں جہاں ان مال مقدموں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ سربمہر ہوتے ہیں اور صرف عدالت میں شہادت کے طورپر کھولے جاتے ہیں۔  
آفتاب باجوہ کے مطابق ’مال مقدمے کا گھر رکھنا بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں ایسے ایسے سقم موجود ہیں۔ جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔‘  

شیئر: