Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طاقتور ترین خلائی دوربین نئی کہکشاؤں کی کھوج لگانے اپنی منزل پر پہنچ گئی

اس دوربین کو آریان فائیو راکٹ پر 25 دسمبر کو داغا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا کی پہلی اور طاقتور ترین خلائی دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ ستاروں اور کہکشاؤں کا مطالعہ کرنے کے لیے زمین سے لاکھوں میل دور خلا میں اپنی حتمی منزل تک پہنچ گئی ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے ایک بیان میں کہا ہے ’ویب، گھر میں خوش آمدید!‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ دوربین اپنا سائنسی مشن موسمِ گرما میں شروع کرے گی۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ اپنے ہائی ریزولیوشن انفراریڈ انسٹرومنٹس کا استعمال کرتے ہوئے13.5 ارب برس قبل ابتدائی کہکشاؤں کا پتا لگائے گا جو کہ بگ بینگ کے بعد بنے تھے۔
واضح رہے کہ اس دوربین کو آریان فائیو راکٹ پر 25 دسمبر کو داغا گیا تھا۔
ویب آبزرویٹری کمیشننگ مینیجر کیتھ پیرش نے فون پر صحافیوں کو بتایا کہ یہ دوربین اپنی کم از کم پانچ سال کی مدت سے تجاوز کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ تقریباً 20 برس تک خلا میں رہ سکتی ہے۔
’یہ فرضی طور پر ممکن ہے لیکن متوقع نہیں کہ مستقبل میں کوئی مشن وہاں جا کر (دوربین میں) ایندھن بھر سکتا ہے۔‘
ناسا کے لیے اس دوربین کی لاگت 10 ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے اور یہ اب تک کا سب سے مہنگا سائنسی پلیٹ فارم ہے۔
اس دوربین کی پوزیشن ڈیپ سپیس نیٹ ورک کے ذریعے کرۂ ارض تک روابط ممکن بنا سکے گی۔ رابطے کے لیے آسٹریلیا، سپین اور کیلیفورنیا میں تین بڑے اینٹینا موجود ہیں۔

10 ارب ڈالر تک کی ممکنہ لاگت والی یہ دوربین اب تک کا مہنگا ترین سائنسی پلیٹ فارم ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رواں ماہ کے آغاز میں ناسا نے جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے بڑے گولڈن آئینے کو کھولنے کا عمل مکمل کیا۔ یہ آئینہ ابتدائی ستاروں اور کہکشاؤں سے انفراریڈ سگنل جمع کرے گا۔
یہ ستارے اور کہکشاں کائنات کے آغاز سے کروڑوں برس بعد بننا شروع ہوئے تھے۔
ابتدائی ستاروں اور کہکشاؤں سے نکلنے والی واضح اور الٹرا وائلٹ لائٹ کائنات کے بڑھنے سے پھیل گئی ہے اور آج انفراریڈ کی شکل میں پہنچ رہی ہے۔ مذکورہ دورن بین اس کا پتا لگانے کی ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ میں دور موجود سیاروں، جنہیں ایکسوپلینٹ کہا جاتا ہے، کے بارے میں بھی پتا لگائے گا۔

شیئر: