Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت خواہ مخواہ اتحادیوں کو اپوزیشن کیمپ میں نہ دھکیلے‘

پرویز الہی نے کہا کہ ’اتحادی جماعتوں نے ہر مشکل وقت میں حکومت کو اپوزیشن کے پنجے سے چھڑایا ہے‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں ایک بار پھر متحرک ہیں اور اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اتحاد نے حکومت کو ہٹانے کی حکمت عملی پر ایک لمبی بیٹھک کی ہے۔
بظاہر تو یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی ہے لیکن ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ میٹنگ میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطے کر کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی راہ ہموار کی جائے۔ 
جب اپوزیشن اتحاد کا یہ اجلاس جاری تھا تو عین اسی وقت حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے دفتر سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ ’اپوزیشن کے جال میں پھنسنے کے بجائے حکومت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے فیصلے کرنے چاہییں۔ اتحادی جماعتوں نے ہر مشکل وقت میں حکومت کا بھرپور ساتھ دے کر اس کو اپوزیشن کے پنجے سے چھڑایا ہے۔‘
چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے بیان میں دبے لفظوں میں حکومت پر تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں جیسے بیانات سے نہ صرف حکومت کی اپنی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہے بلکہ انتظامی مشینری کا مورال بھی ڈاؤن ہوتا ہے۔‘  
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اتحادیوں سے بامقصد مشاورت کی روش کو اپنائے اور خواہ مخواہ اتحادیوں کو اپوزیشن کیمپ میں نہ دھکیلے۔‘
سپیکر نے سیاست میں بد تہذیبی کے کلچر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کردار کشی کرنا بھی ہے۔‘  
حکومت کی اتحادی جماعت اصل میں موجودہ سیاسی صورت حال میں کیا پیغام دینا چاہتی ہے اس پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ق یا کسی بھی اتحادی جماعت کے بیان ہمیشہ ایک ہی سیاق و سباق کے حامل ہوتے ہیں اور وہ سیاق و سباق ہے اسٹیبلشمنٹ کا موڈ اور اشارہ۔‘
’پاکستان کی سیاست میں مقتدر حلقوں کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور عام طور پر اتحادی جماعتیں انہی مقتدر حلقوں کے اشارے کی منتظر رہتی ہیں۔ آج ان کو اشارہ مل جائے تو وہ حکومت چھوڑ کر اپوزیشن کیمپ میں شامل ہوں ہو جائیں گی۔ ان کی ہر دور میں یہی سیاست رہی ہے۔‘  
ایک سوال کے جواب میں کہ چوہدری پرویز الٰہی درپردہ حکومت کو کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں؟ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’واضع سی بات ہے موجود حالات میں پرویز الٰہی اپنی آواز بلند کر کے صرف یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس کھیل کا ابھی بھی مرکزی مہرہ ہیں۔ چونکہ حکومت ان کی حمایت کی مرہون منت ہے اس لیے وہ اس سیاسی منظرنامے میں اپنی حیثیت منواتے رہتے ہیں۔‘
 

حکومت اور مسلم لیگ ق کے درمیان میٹھے کڑوے کا یہ تعلق شروع دن سے ایسے ہی چل رہا ہے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور مسلم لیگ ق کے درمیان میٹھے کڑوے کا یہ تعلق شروع دن سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ کبھی حکومتی پالیسیوں پر سرعام تنقید تو کبھی شدید ضرورت کے وقت حکومت کو پارلیمنٹ اور سینیٹ میں پوری طرح آکسیجن فراہم کرنا۔ چاہے وہ سینیٹ کے انتخابات ہوں یا حکومت کے تھوک کے حساب سے لائے گئے نئے قوانین کو بغیر بحث کیے منظور کروانا ہو مسلم لیگ ق نے ایسے موقعوں پر حکومت کا ساتھ ہی دیا۔  
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ بات ہے جس کی طرف میں اشارہ کررہا تھا اور چوہدریوں کی یہی سیاست ہے۔ وہ اپنے وجود کو تسلیم کروانا کبھی نہیں بھولتے اور گاہے گاہے حکومت کو باور کرواتے رہتے ہیں۔ چونکہ ابھی مقتدر حلقے خود بھی خاموش ہیں اس لیے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ بتاتے ہیں کہ ہمارا کردار آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا حکومت بناتے وقت تھا۔ تو میرا یہی خیال ہے کہ ابھی یہ کھیل کچھ عرصہ ایسے ہی چلے گا۔‘ 

شیئر: