Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عثمان مرزا کیس میں ویڈیو کس اکاؤنٹ سے اپ لوڈ ہوئی؟ ایف آئی اے پتا نہ لگا سکا

حکومت خود اس کیس کی پیروی کر رہی ہے۔ فوٹو: اسلام آباد پولیس
اسلام آباد کے علاقے ای الیون میں ایک لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کے کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) تاحال یہ معلوم نہیں کر سکا ہے کہ متاثرہ لڑکی اور لڑکے کی ویڈیو پہلی دفعہ کس اکاؤنٹ سے اپ لوڈ ہوئی تھی۔
عثمان مرزا کیس میں منگل کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ 6 ماہ گزر جانے کے باوجود ایف آئی اے نے تاحال نہیں بتایا کہ ویڈیو سب سے پہلے کس نے اپ لوڈ کی تھی۔  
مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس نے تفتیشی افسر شفقت محمود پر جرح کی۔ عدالت میں پانچ گھنٹے تک تفتیشی افسران پر ملزمان کے وکلا کی جرح جاری رہی۔ 
 دوران جرح تفتیشی افسر نے عدالت میں بیان دیا کہ ایف آئی اے کو ویڈیو اپ لوڈ کرنے سے متعلق پہلا خط 28 جولائی جبکہ دوسرا خط 19 جنوری کو لکھا لیکن تاحال ایف آئی اے کے پاس یہ معاملہ زیر التوا ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے ساتھ ہونے والے رابطے کے بارے میں عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا نہ ہی بیان میں ایسا کوئی ذکر موجود ہے۔ 
جرح کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ کال ریکارڈ ڈیٹا کے مطابق 16 نومبر سے 20 نومبر 2020 تک متاثرہ لڑکی کی لوکیشن لاہور میں نہیں آئی اور جبکہ اس عرصے کے دوران لڑکی کی لوکیشن اسلام آباد ہی ریکارڈ ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ لڑکی لاہور سے انٹرویو کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔  
تفتیشی افسر نےعدالت کو بتایا کہ ابتدا میں مقدمے میں دفعہ 341 غلط لگائی گئی تھی جو ہٹا کر دفعہ 342 درج کی گئی۔ 
تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ ’کال ریکارڈ کے مطابق متاثرہ لڑکی اور لڑکے کے ساتھ مرکزی ملزم اور شریک ملزم کا جائے وقوعہ سے پہلے اور بعد میں کوئی رابطہ ہی نہیں ہوا۔‘ 

ایف آئی اے کو معلوم نہیں ہو سکا کہ ویڈیو پہلے کس نے اپ لوڈ کی تھی۔ فوٹو: سکرین گریب

اسلام آباد پولیس نے عدالت میں ضمنی چالان پیش کرتے ہوئے شریک ملزم کی وائس میچنگ کی فرانزک رپورٹ بھی آج عدالت میں جمع کروا دی ہے۔ 
ملزمان سے برآمد کی گئی بھتے کی رقم کے نوٹ نمبر ریکارڈ سے میچ نہیں کرتے
اس سےقبل ملزم عمر بلال مروت کے وکیل نے ابتدائی تفتیشی افسر طارق زمان پر جرح کی۔ اس دوران تفتیشی افسر کی جانب سے یہ تصدیق کی گئی ہے کہ ملزمان سے برآمد کی گئی رقم کے نوٹ نمبر عدالتی ریکارڈ سے میچ نہیں کرتے۔
تاہم اس کے ساتھ تفتیشی افسر نے وضاحت بھی دی کہ ’نوٹوں کے فرد میرے سامنے بنے تھے، مجھے یہ معلوم نہیں کہ ریکارڈ کے ساتھ برآمد کیے گئے نوٹ کے نمبرز میچ کیوں نہیں کر رہے۔‘  
دوران جرح تفتیشی افسر نے یہ بھی بیان دیا کہ خاتون کو برہنہ کرنے کے حوالے سے کوئی گواہ نہیں ملا تاہم ڈیجیٹل شواہد کی فرانزک رپورٹ میں ملزمان کی موجودگی اور برہنہ کرنے کا معاملہ ثابت ہوتا ہے۔ 
مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل کی جرح پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عثمان مرزا کو جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت اس کی جیب سے کوئی رقم نہیں نکلی۔اس بیان پر عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس نے کہا کہ میڈیا نے ملزم کو اسلام آباد کا ڈان بنا کر پیش کیا اور حالت یہ ہے کہ جب اس کو گرفتار کیا گیا اس وقت اس کی جیب خالی تھی۔ 
دوران سماعت عدالت نے کیس کے پیروی کرنے والے پولیس اہلکاروں کی عدم موجودگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے جرح کے دوران بھتے کی رقم کا فرد پیش کرنے پر پولیس اہلکار کو طلب کیا تو نائب کورٹ نے عدالت کو بتایا کہ کیس کی پیروی کرنے والے عدالت میں ہی موجود نہیں جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پریس ریلیزیں تو پتہ نہیں کیا کیا جاری کرتے ہیں پراسیکیوشن کی حالت تو یہ ہے۔  

پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ فوٹو ملیکہ بخاری ٹوئٹر 

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 8 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ آئندہ سماعت پر مرکزی ملزم کے وکیل تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔ 
دوران سماعت پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری بھی آدھے گھنٹے تک کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ ملیکہ بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی پیروی ریاست خود کر رہی ہے اور میں سماعت کی آبزرویشن کے لیے آج عدالت آئی تھی، معاملہ ابھی عدالت میں ہے اس لیے زیادہ بات نہیں کر سکتی۔

شیئر: