Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس: تمام گواہان پر جرح مکمل، آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کی استدعا

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں فرانزک رپورٹ کے شواہد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دارالحکومت اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں ایک اہم اور بڑا مرحلہ بدھ کو مکمل ہو گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کے وکیل نے اسلام آباد پولیس کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق بھی ایک درخواست عدالت میں دائر کر دی ہے۔
بدھ کو مقدمے کے ٹرائل کا بڑا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے جس میں استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے گواہان پر مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کر لی ہے۔  
مرکزی ملزم کے وکیل کی نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے زیر التوا مقدمے سے متعلق وضاحت جاری کرنے پر آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے۔ 
دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کی جانب سے تین متفرق درخواستیں عدالت میں دائر کی گئیں، جن میں سے ایک درخواست میں پولیس کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کرنے پر انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کے خلاف کارروائی کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔  
مرکزی ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے زیر التوا مقدمے کے دوران میڈیا کو مقدمے کی تفتیش سے متعلق وضاحتی بیان جاری کیا جس پر عدالت کوئی مناسب کارروائی کرے۔ 
واضح رہے کہ نور مقدم کیس کے دوران مرکزی ملزم کے وکیل کی تفتیشی افسر پر جرح کے دوران یہ بیان دیا تھا کہ گرفتاری کے وقت ملزم کی پتلون خون آلود نہیں تھی جبکہ جائے وقوعہ سے برآمد کیے گئے چاقو اور پستول پر مرکزی ملزم کے فنگر پرنٹس نہیں پائے گئے۔ 

مدعی کی جانب سے مقتولہ کی والدہ کا فراہم کیا گیا نمبر کسی اور خاتون کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تفتیشی افسر کے عدالت میں اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر پولیس پر خاصی تنقید کی گئی جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے اس کا ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ گرفتاری کے وقت ملزم کی پتلون خون آلود نہیں تھی تاہم ان کی شرٹ پر خون لگا ہوا تھا۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل اس بیان میں دوران تفتیش فرانزک رپورٹ کے شواہد کا بھی ذکر کیا گیا اور وضاحت کی گئی کہ ڈی این اے رپورٹ کے مطابق ریپ کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ 
بدھ کو سماعت کے دوران مرکزی ملزم کے وکیل نے ایک اور درخواست بھی دائر کی جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ تفتیشی افسر نے جائے وقوعہ کا نقشہ درست نہیں بنایا اور عدالت پریزائیڈنگ افسر کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے احکمات جاری کریں اور تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیں۔  
ملزم کے وکیل کی جانب سے تیسری درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ مدعی کی جانب سے مقتولہ کی والدہ کا فراہم کیا گیا نمبر کسی اور خاتون کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور اس نمبر سے مسلسل مقتولہ کے ساتھ رابطہ کیا جاتا رہا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فراہم کیا گیا موبائل نمبر جس خاتون کے نام پر رجسٹرڈ ہے اسے شامل تفتیش نہیں کیا گیا اس حوالے سے عدالت موبائل نمبر کی ملکیت کی تصدیق کرے۔ 
دوران سماعت کیا ہوا؟  
 بدھ کو اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں تھیراپی ورکس کے ملازمین کے وکلا نے جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلا کر تفتیشی افسر پر متعلق جرح کی۔ 

اسلام آباد پولیس کے بیان کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم کی پتلون خون آلود نہیں تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بدھ کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں میں ڈی وی آر سے سی سی ٹی وی فوٹیج چلائی گئی اور میڈیا اور دیگر افراد کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی گئی۔  
اس دوران عدالت میں پراسیکیوٹر حسن عباس اور مدعی شوکت مقدم عدالت میں موجود تھے جبکہ تھیراپی ورکس کے ملازمین اور مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل شہزاد قریشی اور اسد جمال نے تفتیشی افسر عبد الستار پر جرح مکمل کر لی ہے جس کے بعد ٹرائل کا ایک بڑا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔  
عدالت نے آئندہ سماعت 7 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ آئندہ سماعت پر تینوں درخواستوں پر مرکزی ملزم کے وکیل سکندر ذولقرنین دلائل دیں گے جبکہ ملزمان کا 342 کا ریکارڈ بھی قلمبند کیا جائے گا۔ عدالت آئندہ سماعت سے قبل تمام ملزمان کے وکلا کو 342 کے بیان کے لیے سوالنامے فراہم کرے گی۔  

شیئر: