Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجگور اور نوشکی میں سکیورٹی فورسز کا کلیئرنس آپریشن مکمل

پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کو ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں فرنٹیئر کور کیمپ پر دو فروری کی شب ہونے والے حملے کے بعد جاری آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔
تین دن تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے۔
پاکستانی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نوشکی اور پنجگور میں مجموعی طور پر 20 دہشتگرد مارے گئے۔ ان حملوں میں فورسز کے دو افسران سمیت نو اہلکار بھی جان سے گئے۔
حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بھی پنجگور میں اپنے سات حملہ آوروں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔ جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد شہر میں عائد پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے سنیچر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پنجگور اور نوشکی میں آپریشنز کے دوران 20 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے آج کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا ہے۔‘
’دہشت گردوں نے دو فروری کو شام دیر گئے نوشکی اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملہ کیا تھا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق ’دونوں مقامات پر فوجیوں کی جانب سے فوری جوابی کارروائی کے ذریعے دونوں حملوں کو کامیابی سے پسپا کر دیا گیا۔‘
آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ ’نوشکی میں نو دہشت گرد مارے گئے۔ حملے کو پسپا کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک افسر سمیت سکیورٹی فورسز کے چار جوان ہلاک ہوئے۔ جبکہ پنجگور میں شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد سکیورٹی فورسز نے حملہ پسپا کیا اور دہشت گرد علاقے سے فرار ہوگئے۔‘

25 جنوری کو ضلع کیچ کے علاقے دشت سبدان میں چوکی پر حملے میں سکیورٹی فورسز کے 10 اہلکار مارے گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’سکیورٹی فورسز نے علاقے میں چھپے دہشت گردوں کی تلاش کے لیے کلیئرنس آپریشن کیا۔ فرار ہونے والے چار دہشت گرد مار دیے گئے جبکہ اگلے روز سکیورٹی فورسز نے فرار ہونے والے باقی چار دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق ’آج کے آپریشن میں گھیرے میں لیے گئے دہشت گرد سرینڈر نہ کرنے پر مار دیے گئے تھے۔ پنجگور میں فالو اپ آپریشنز کے دوران ایک جونیئر سب کمیشنڈ افسر سمیت پانچ اہلکار جان سے گئے جبکہ چھ اہلکار زخمی ہوئے۔‘
’ان حملوں سے منسلک دیگر تین دہشت گرد جمعرات کو پنجگور سے ملحقہ کیچ کے علاقے بالتر میں مارے گئے تھے جن میں دو انتہائی اہم دہشتگرد بھی شامل تھے۔‘

پنجگور میں معمولات زندگی بحال

قبل ازیں کمشنر مکران ڈویژن شبیر احمد مینگل نے اردو نیوز کو بتایا کہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد شہر میں معمولات زندگی بحال کر دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شہریوں کی حفاظت اور جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے کی حکمت عملی کے تحت آپریشن مکمل ہونے میں وقت لگا اور یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔‘
’تمام دہشتگرد مارے گئے اور ابتدائی نقصانات کے بعد فورسز اور شہریوں کا مزید کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘
سکیورٹی فورسز نے کیمپ سے ملحقہ دو سے تین کلومیٹر علاقے اور پنجگور کے چتکان ٹاؤن کو مکمل طور پر گھیرے میں لے کر ہر قسم کی آمدروفت پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس صورتحال کے باعث گذشتہ تین دنوں سے ہزاروں افراد گھروں اور دفاتر میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ انہیں خوراک کی کمی کے باعث سخت مشکلات کا سامنا تھا۔ شہر میں انتظامیہ نے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی تھی۔

پولیس افسر کے مطابق ’ہلاک حملہ آوروں کے قبضے سے غیرملکی ساختہ اسلحہ ملا ہے۔‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)

دوسری جانب پنجگور سے شہریوں نے لینڈ لائن فون پر اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’اب تک (سنیچر کی شب دس بجے تک) موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند ہے اور کیمپ کے قریبی علاقوں میں اب تک شہریوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘
کمشنر مکران ڈویژن شبیر احمد مینگل کے مطابق ’شہریوں کی حفاظت کے پیش نظر انہیں گھروں تک محدود رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ دہشت گردوں کے رابطے توڑنے کے لیے کمیونیکیشن سروس بند رکھی تھی تاہم آپریشن مکمل ہونے پر جمعے کی شام کو تمام پابندیاں ہٹادی گئیں اور شہری زندگی اب معمول پر آ گئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشتگردوں نے کیمپ سے ملحقہ ضلعی صحت افسر کے دفتر کو اپنا کمپاؤنڈ بنایا ہوا تھا اس وجہ سے کارروائی کے باعث ڈی ایچ او دفتر کو نقصان پہنچا ہے۔‘
پنجگور کے مقامی شہریوں کے مطابق کیمپ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بدھ کی رات سے سنیچر کی دوپہر تک وقفے وقفے سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں۔ اس دوران فضا میں مسلسل ہیلی کاپٹر گشت کرتے رہے۔
پنجگور میں موجود ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’تقریباً 70 گھنٹوں بعد سنیچر کی شام کو فورسز نے کیمپ اور علاقے کو کلیئر قرار دے دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس آپریشن میں ہیلی کاپٹرز اور پاک فوج کے کمانڈوز کی مدد بھی لی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کیمپ کے داخلے دروازے پر دھماکے کے بعد جب فورسز کی ساری توجہ اس جانب گئی تو دہشت گرد پرانے ہسپتال اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفسر کے دفتر کی دیوار پھلانک کر کیمپ کے اس عقبی حصے میں داخل ہوئے جہاں ڈیری فارم موجود تھے۔ تاہم فورسز نے انہیں وہاں تک محددو رکھا۔‘
’دہشتگردوں نے دستی بم کے علاوہ راکٹ لانچر کے ذریعے راکٹ گولے بھی داغے۔ شدید فائرنگ کے تبادلے اور گولہ باری میں ڈیری فارم میں موجود متعدد گائے اور بکریاں بھی ہلاک ہوئیں۔‘

ان حملوں میں پاکستانی فوج کے دو افسران سمیت نو اہلکار بھی جان سے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس افسر کے مطابق ’ہلاک حملہ آوروں کے قبضے سے غیرملکی ساختہ ایم فور رائفلیں، راکٹ لانچر، دستی بم اور راکٹ گولوں کے علاوہ نائٹ ویژن دوربین بھی ملی ہیں۔ حملہ آوروں گولیوں اور دستی بموں کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ پانی اور خوراک کا بندوبست کر کے آئے تھے تاکہ زیادہ دیر تک مقابلہ کر سکیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’نصف درجن سے دستی بم اور راکٹ گولے ایسے بھی ملے جو داغے جانے کے باوجود پھٹ نہیں سکے تھے جنہیں بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔‘ 
یاد رہے کہ پنجگور اور نوشکی میں بدھ کی شام بیک وقت نامعلوم عسکریت پسندوں نے فرنٹیئر کور کے مقامی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کیے تھے۔
دونوں مقامات پر کیمپ کے داخلے دروازوں پر بارودی سے بھری گاڑیاں ٹکرائی گئیں اور اس کے بعد ان کے ساتھی حملہ آوروں نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔
نوشکی میں فورسز نے تمام نو حملہ آور مار کر آپریشن اسی رات کو مکمل کر دیا اور اگلی صبح کیمپ کو بھی کلیئر قرار دیا تھا تاہم پنجگور میں فورسز اور نامعلوم عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ جمعہ کی شام تک جاری رہی۔
پنجگور کوئٹہ سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور بلوچستان کے جنوب میں ایرانی سرحد سے ملحقہ ہے اور یہاں فرنٹیئر کور 'پنجگور رائفلز' کا ہیڈ کوارٹر شہر کے مرکز میں آبادی اور بازار کے درمیان میں قائم ہے۔

شیئر: