Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: عورتوں کا پاکستان

ہمیں انتہا پسند گروہوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ایک دن باہر آ کر کچھ نعرے لگانے والی چند درجن خواتین سے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف ہی)
قندیل بلوچ کا قاتل بھائی رہا ہو کر گھر پہنچ چکا ہے۔ نور مقدم کیس میں روز ایک نئی بات سننے کو ملتی ہے۔ اسلام آباد بلیک میلنگ کیس ختم ہونے کے قریب ہے۔ مینارِ پاکستان واقعے کے ملزم رہا ہو چکے ہیں۔ ریپ کیس اب بھی معمول کی خبر ہے۔ وزیر مذہبی امور عورت مارچ پر پابندی کے لیے خط لکھ رہے ہیں۔ یہ ہے عورتوں کا پاکستان
عورتوں کے پاکستان میں قانون موجود ہیں مگر عورتوں کو قانون کی مدد کم ہی حاصل ہوتی ہے۔ قانون اسی وقت کچھ کچھ ہوش میں آتا ہے جب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے، جو میڈیا میں خبر بن جائے۔
اس کے بعد کچھ عرصے تک لگتا ہے کہ شاید عورتوں کے تحفظ کے لیے کوئی دور رس اقدامات ہو جائیں گے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ ہائی کورٹ نے عورتوں کے دوشیزگی کے ٹیسٹ پر پابندی لگا دی ہے، تو کچھ امید بندھتی ہے۔
سپریم کورٹ میں خاتون کے جج بننے کے بعد لگتا ہے کہ ماحول بدل رہا ہے۔ یہ مٹھی بھر حوصلہ افزا خبریں جلد ہی حوصلہ شکن خبروں میں بدل جاتی ہیں اور بات وہی پہ پہنچ جاتی ہے، جہاں پر اصل میں تھی۔

’قندیل بلوچ کے گھر والے مرنے والی بیٹی کے لیے زندہ بھائی کیسے قربان کریں‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

اصل حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے قانون کے مطابق مرنے والا اپنے خاندان کی پراپرٹی تصور ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مقتول کمزور اور غریب ہو تو پیچھے رہ جانے والوں پر براہ راست دباؤ آسان ہو جاتا ہے اور اگر مقتول عورت ہو اور مارنے والا اس کا رشتہ دار تو پھر کوئی والی وارث نہیں ملتا۔
قندیل بلوچ کے گھر والے مرنے والی بیٹی کے لیے زندہ بھائی کیسے قربان کریں۔ اس کا حل ہو سکتا ہے اگر ملزم کو یہ فائدہ نہ دیا جائے۔
یہاں پر دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کیس کے مدعی اور گواہ بھی اہل خانہ ہی ہوتے ہیں۔ ریاست اور پولیس کی پاس بہانہ ہوتا ہے کہ اصلی گواہ اور حقیقی مدعی میسر نہیں ہوتے۔ اگر مدعی باقاعدہ صلح نہ بھی کرے اور بس ’بیٹھ ‘ ہی جائے تو بھی کیس ختم ہو جاتا ہے۔ چاہے معافی ہو یا ٹیکنیکل ریلیف، کیس تو ہر حال میں ختم ہونا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں کے پاکستان میں عورتوں کا احساس تحفظ کم سے کم ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کیا کر سکتی ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ جہاں پہ ریاست چاہے وہاں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں دہشت گردی کے چیلنج کے قانون، عدالتیں اور کئی محکمے کھڑے کیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات ہمارے وجود کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اسی طرح ہی 50 فیصد آبادی کے تحفظ کے کیے جنگی بینادوں پر اقدامات ضروری ہیں۔

نور مقدم کیس میں روز ایک نئی بات سننے کو ملتی ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ریپ، قتل، ہراسانی- کیا کیا خطرات نہیں عورتوں کو۔ آن لائن جرائم کی ایک نئی تفصیل ہے۔ بلیک میلنگ، دھمکیاں اور جعلی تصویریں ایک معمول ہیں۔ اور ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ انسداد ریپ کا قانون تک بڑی مشکلوں سے بنتا ہے۔ پھر بھی خانگی ریپ اور گھریلو تشدد کے قوانین پر اتفاق نہیں ہوتا۔ آن لائن بھی ہمارا زیادہ زور یہ ہے کہ حکومتی اداروں کو تنقید سے بچایا جائے، عورتیں ابھی انتظار کریں۔
عورتوں کے لیے انتظار طویل ہے۔ مثلاً ابھی کافی انتظار کرنا ہے عوامی مقامات پر اپنی جگہ بنانے کے لیے۔ آئے روز خبر آتی ہے کہ کئی طبقات کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچیوں سے مسئلہ ہے اور کچھ کو عورتوں کے کیے خاص اقدامات سے۔
ہم عورت کی عزت صرف اسی صورت میں کرنا چاہتے ہیں جب وہ ہمارے خیالات اور نظریات کی اطاعت کریں۔ خود مختار اور اپنی سوچ رکھنی والی عورت ہمارے لیے ایسا خطرہ ہے جیسے طاعون کی وبا۔
ہمیں انتہا پسند گروہوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ایک دن باہر آ کر کچھ نعرے لگانے والی چند درجن خواتین سے ہیں۔ اصل بات البتہ یہ ہے کہ عورتیں کہیں اپنا جائز اور قانونی حق  لینے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔

خود مختار اور اپنی سوچ رکھنی والی عورت ہمارے لیے ایسا خطرہ ہے جیسے طاعون کی وبا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

مختاراں مائی، قندیل بلوچ، نور مقدم - عورتوں کے پاکستان میں انصاف کی منتظر خواتین کی تعداد کم ہونے کو نہیں آ رہی۔ پاکستان کو البتہ یہ سوچنا ہے کہ ملک کی 50 فیصد آبادی کو محکوم، مجبور اور مظلوم رکھ کر کوئی ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے اور 50 فیصد آبادی کو عدم تحفظ میں رکھ کر کوئی معاشرہ کیسے اپنے آپ کو مہذب کہلا سکتا ہے؟
ہم باقی دنیا کو اچھا یا برا کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ حقیقت ہمیں خود ہی بدلنی ہے کہ پاکستان عورتوں کے لیے بھی اتنا ہی آسان ہو جتنا مردوں کے لیے ہے۔

شیئر: